ٹرمپ کا مینیجر مجرم قرار، وکیل کا اعتراف جرم


واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو منگل کے روز اس وقت دوہرے دھچکہ کا سامنا کرنا پڑا جب ان کے سابقہ وکیل اور اس کے قریبی معاون مائیکل کوہن نے عدالت کے سامنے  آٹھ مختلف جرائم بشمول ٹیکس چوری، ایک مالیاتی ادارے کو جعلی کاغذات دینے اور غیرقانونی کارپوریٹ چندہ دینے کے جرائم کا اعتراف کرلیا جب کہ ٹرمپ کے سابق کمپین مینیجر پال مینا فرٹ کو ایک جیوری نے آٹھ مالیاتی جرائم کا سزاوار پایا۔

مائیکل کوہن کے آٹھ میں سے کم ازکم دو جرائم کا تعلق براہ راست صدر ٹرمپ سے ہے۔ کوہن نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے دو خواتین کو ایک صدارتی اُمیدوار کی جانب سے کچھ  ادائیگیاں کیں تا کہ الیکشن کے نتائج پر اثرانداز ہوا جا سکے۔

ماضی میں اس طرح کی خبریں سامنے آتی رہیں کہ امریکی صدر نے ایک جسم فروش عورت سے جسمانی تعلقات رکھے تھے، اس خاتون نے جب ناجائز جسمانی تعلق کی بات کو منظر عام پر لایا تو اسے خاموش رہنے کے لیے بھاری رقم ادا کی گئی تھی۔

کوہن نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ 2014 میں جب وہ ایک میڈیا کمپنی کا چیف ایگزیکٹو تھا تو ایک صدارتی امیدوار کو ڈیرھ لاکھ  ڈالر کی رقم ادا کی۔ ان معلومات کو عوام سے خفیہ رکھنے کے لئے اس نے صدارتی امیدوار کے مشورے پر یہ رقم ایک خاتون کو دی تاکہ الیکشن کے نتائج پر اثرانداز ہوا جا سکے۔

مائیکل کوہن نے قانونی حد سے زیادہ چندہ دینے کے جرم کا اعتراف کیا، اس کے زیر کنٹرول کمپنی سے ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر ایک اور عورت کو صدارتی امیدوار کی ہدایت پر ادا کیے گئے۔

امریکی ڈسٹرکٹ جج ولیم پاؤلی نے مائیکل کوہن سے پوچھا کہ کیا تم جانتے تھے کہ تم ایک غیرقانونی کام کر رہے ہو تو ٹرمپ کے سابق وکیل کا کہنا تھا کہ ’ہاں مجھے علم  تھا‘۔ قانونی ماہرین کے مطابق مائیکل کوہن کے یہ الفاظ ٹرمپ کے لئے خاصے بڑے قانونی نقصان کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں۔

جنوبی نیویارک کے سابقہ اسسٹنٹ اٹارنی میم روچ کے خیال میں مائیکل کوہن کا یہ بیان بہت اہم بات ہے۔

مائیکل کوہن کی اس پلی بارگین (سزا میں کمی کے لیے اعتراف جرم) کی خبر اس وقت سامنے آئی جب ورجینیا کی ایک جیوری نے ٹرمپ کے سابقہ کمپین چیئرمین پال منافورٹ کو بھی آٹھ مختلف جرائم میں مجرم قرار دیا۔

منافورٹ کا مقدمہ خصوصی تحقیقاتی افسر رابرٹ میولر کی امریکی انتخابات میں روس کے مداخلت کی تحقیقات کا پہلا مقدمہ ہے۔

امریکی میڈیا رپورٹس میں تصدیق کی گئی ہے کہ ایوان صدر وائٹ ہاؤس سے معاملہ پر تبصرے کے لئے رابطہ کیا گیا تو کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔


متعلقہ خبریں