پشاور (طارق وحید) جولائی 2020 کا واقعہ ہے جب خیبر پختونخوا کے ضلع دیر میں بارہ سال کی بچی نائلہ شادی کے چند دن بعد پر اسرار طور پر جاں بحق ہوگئی،بچی کی شادی تیرہ سال کے لڑکے کےساتھ کی گئی تھی.
اس افسوسناک واقعہ نے کم عمری شادی کی قبیح روایت کی طرف لوگوں اورمیڈیا کی توجہ دلائی تو ساتھ ہی سول سوسائٹی نے احتجاجی مظاہرے بھی کئے، صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی اور اس دوران اسمبلی اجلاس بھی چل رہا تھا، واقعہ کی باز گشت اسمبلی تک پہنچی تو وہاں بھی خواتین اراکین نے احتجاج کیا اور برسوں سے فائلوں میں پڑامسودہ پیش کرکے کم عمری کی شادیاں روکنے کے لئے قانون سازی پر زور دیا۔
کراچی میں اٹلی کے قونصل جنرل کی جانب سے افطار کا اہتمام
اپوزیشن اور حکومت دونوں نے واقعہ کی مذمت کی اورمعاملے کی سنگینی دیکھتے ہوئے اساس پرمتفق بھی ہوگئے، لیکن اس جذباتی فضا کی دھول جلد بیٹھ گئی جب قانون سازی کا مسودہ بھی ایک بار پھر سرد خانے میں چلا گیا۔
کم عمری کی شادی خیبر پختونخوا میں بھی ایک سنگین معاشرتی مسلہ چلا آرہا ہے جس کے لئے قانون میں بنیادی عنصر لڑکی کے لئے عمر کی حد اٹھارہ سال کرنے اور ملوث افراد کی سزاوں میں اضافہ ہے، لیکن خواہش اور کوششوں کو باجود گیارہ برس گزر گئے چائلڈ میریج ایکٹ کا ترمییمی بل ڈرافٹ سے اگے نہ بڑھ سکا، اس کا مسودہ اسمبلی ، کمیٹیوں، مشاروت اور شریعت کونسل کے درمیان ہی گردش کرتا رہا ہے۔
خیبر پختونخوا میں بچوں کے حقوق کے لے کام کرنے والے سماجی کارکن عمران ٹکر نے ہم نیوز ڈیجیٹل کو بتایا،جہاں تک قانون کی بات ہے تو پاکستان میں 1929 کا میریج رسٹرن ایکٹ ابھی تک رائج ہے۔
جس میں لڑکی کے لیے شادی کی عمر 16 اور لڑکے کے لیے 18 سال ہے۔ جبکہ سزا ایک ہزار روپے جرمانہ اور ایک مہینے کی قید ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی سطح پر سب سے پہلے سندھ نے کم عمری کی شادی کی روک تھام کے لیے 2013 میں قانون سازی کی ہے جس میں لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیے عمر 18 کی حد 18 سال رکھی گئی
جس کے مطابق والدین یا دیگر ذمہ داران کے لیے تین سال تک سزا مقرر کی گئی ہے جبکہ اسے ناقابل ضمانت جرم قرار دیا گیا ہے،پنجاب نے اس سلسلے میں 2015 میں قانون سازی کی ہے جس میں لڑکی کی عمر 16 سال ہی رکھی گئی البتہ سزاوں میں اضافہ کیا گیا، عمران ٹکر کے مطابق بنیادی ی نکتہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ بچوں کے حقوق چارٹر کے مطابق اٹھارہ سال تک فرد کو بچہ قرار دیا گیا ہے تو اصولی طور لڑکے کے ساتھ لڑکی کی عمر بھی شادیی کے لئے اٹھارہ سال بنتی ہے۔
خیبرپختونخوا میں کم عمری کی شادی روکنے کے لئے پارلیمانی کو ششوں کی تاریخ طوییل ہے، دو ہزار بارہ میں اے این پی حکومت کے دوران اس حوالے سے پہلی بارایک پرائیویٹ بل پیش ہوا تھا جو غائب ہوگیا۔
قومی کرکٹ ٹیم کے کوچ کی تلاش، پی سی بی کا گیری کرسٹن سے بھی رابطہ
پھراس معاملے کو دو ہزار چودہ ممیں نئی انے والی پی ٹی آئی حکومت نے اٹھا کر ترمیم لانے کی کوشش کی تھی اور باقاعدہ ڈرافٹ کے ساتھ بل کے مختلف نکات پر بحث مبا حثوں، مشاورت کا سلسلہ دو سال تک چلتا رہا لیکن اسمبلی میں نہ صرف اپوزیشن جما عت بلکہ حکومتی اراکین اور کچھ مذہبی جماعتوں کے اعتراضات سامنے انے پر یہ بل پاس نہ ہو سکتا اورمعاملہ پھر پارلیمانی کمیٹی میں لٹک گیا۔
2016 میں اسمبلی کی خواتین اراکین نے یہ معاملہ پھر اٹھایا اور کم عمری کی شادی پر پابندی کے ساتھ لڑکیوں کی عمر کم سے کم اٹھارہ سال کرنے کی قرارداد منظور لرالی، لیکن جب بات بل کے مسودے تک آئی تو ایک بار پھر اسپیکرنے مختلف توجیہات پیش کرکے معاملہ لٹکا دیا۔
2019 میں جب صوصوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت دوبارہ قائم ہوئی تھی تو طویل وقفے کے بعد کم عمری شادی پر پابندی کا بل ایک بار پھر منظرعام پر آیا لیکن اس وقت کے وزیر اعلی محمود خان نے مذھبی مسائل پیدا ہونے کے خدشہ پر یہ قانون سازی رکوادی تھی اور اس وقت کے وزیر شوکت یوسفزئی کی سربراہی میں کمیٹی قائم کردی جس کو مذہبی اکابرین، سول سوسائٹی اور دیگر فریقین سے مشاورت کے بعد تجاویز پیش کرکرنے کی ہدایت کی گئی۔
ہم نیوز نے اس معاملے پر شوکت یوسفزئی سے صورتحال جاننے کی کوشش کی ،، مجھے نہیں معلوم کہ پھر کیا ہوا تھا ہمارے ایک دو اجلاس بھی ہوئے تھے لیکن اب بھول گیا ہوں کہ کیا پیش رفت ہوئی تھی،، یہ کہنا تھا سابق وزیر کا، ان کے مطابق ایک اور کمیٹی بنائی گئی تھی اور معاملے پر وفاقی شریعت کونسل کی رائے بھی لینے کی بات ہوئی تھی،
چند سال خاموشی کے بعد جون 2021 میں پی پی پی کی خاتون رکن نگہت اورکزئی نے ایک بار پھر یہ قانون سازی اگے بڑھانے کے لئےپرائیویٹ بل ایوان میں پیش کیا ، ایک بار پھر بحث مباحثوں کا سلسلہ شروع ہوا اور بات آگے بڑھنے کی بجائے کمیٹی کے پاس چلی گئی۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے الحبیب ایکسچینج کمپنی کا افتتاح کر دیا
،میرا نہیں خیال کہ مذہب کا معاملہ کمر عمری شادی کی روک تھام میں رکاوٹ ہے،پھر تو ملک بھر میں ایک جیسے مذہبی قوانین ہونےچاہیئے تھا، اس سےنقصان یہ ہو رہا ہے کہ سندھ سے نو عمر بچوں کو پنجاب کے بارڈ پر لاکر نکاح پڑھوائے جاتے ہیں۔
جب بچوں اور انسانی حقوق کا معاملہ ہو تو پھر یونیورسل قوانین ہونے چاہیئے” عورت فاونڈیشن کی ریزیڈنٹ ڈائریکٹر شبینا ایاز کے مطابق عمر کی حد بڑھانے میں مذہب سے زیادہ “پدر شاہی” معاشرہ اور فرسودہ روایات رکاوٹ ہیں۔
اب خیبرپختونخوا میں تیسری بار پی ٹی آئی کی حکومت آگئی ہے، جس میں نوجوان اور نئے چہرے زیادہ ہیں، البتہ اس بل کو بار بار ایجنڈے پر لانے والی حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کی بیشتر تجربہ کار خواتین پارلیمان سے باہرہوگئی ہیں۔
نئی حکومت کو ایک بار پھر گیارہ سال سے زیرگردش اس قانونی مسودے کا مستقبل طے کرنا ہے جس میں لڑکی کی عمر اٹھارہ سال تک لانے کا بڑاچیلنج بدستور درپیش ہوگا۔