انتخابات 2024 کے پچاس بڑے ٹاکرے

انتخابات 2024

اسلام آباد(زاہد گشکوری، ہیڈ  ہم انویسٹی گیشن ٹیم )پاکستان کی اہم سیاسی شخصیات کی جانب سے انتخابات 2024 میں عوامی ووٹ کے حصول اور دوبارہ منتخب ہونے کیلئے انتخابی مہم پورے جوبن پر ہے۔

تاہم بعض پیچیدگیوں کے باعث تین سابق وزرائے اعظم سمیت کئی بڑی سیاسی شخصیات کا پارلیمانی مستقبل غیر یقینی دکھائی دیتا ہے کیونکہ یہ سب اس سیاسی دنگل کا حصہ نہیں۔

سابق وزرائے اعظم چوہدری شجاعت حسین، عمران خان اور شاہد خاقان عباسی متعدد وجوہات کی بنا پر مقابلے سے باہر ہو گئے ہیں، بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اب بھی سنگین عدالتی مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ جو عملی سیاسی میدان میں اُن کی موجودگی کے لیے بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہے ہیں۔

متعلقہ سیاسی جماعتوں کی قیادت کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف، شہباز شریف، راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی اور سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، مریم نواز شریف، سراج الحق، آفتاب شیرپاو، خالد مقبول صدیقی، مولانا فضل الرحمان، چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی، محمود اچکزائی، ایمل ولی خان، جہانگیرخان ترین، اسلم رئیسانی، پرویزخٹک اور علیم خان آئندہ عام انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

علاوہ ازیں عمران خان کی سیاسی جماعت تحریک انصاف اپنے انتخابی نشان ”بلے“ سے محروم اور تحلیل ہو گئی کیونکہ مذکورہ جماعت کی اعلیٰ قیادت متعدد قانونی چیلنجوں میں الجھی ہوئی ہے۔

جس میں بطور وزیر اعظم ریاستی تحائف قبول کرنے اور ان کی آمدنی چھپانے کے الزامات کے ساتھ ساتھ ایک رئیل اسٹیٹ ٹائیکون سے ناجائز فائدہ حاصل کرنے کے الزامات شامل ہیں۔

یہ سب معاملات ان کی سیاست سے نااہلی اور قید کا باعث بنے ہیں۔ ملک کے طاقتورحلقے بھی ماضی کی طرح سیاسی منظر نامے پرتوجہ برقراردکھائی دیتی ہے، جبکہ عمران خان کو مسلسل سیاسی زوال کا سامنا ہے اور پچھلے دوسال کے واقعات کے برعکس نواز شریف کی جلدوطن واپسی کو پاکستان کے معاشی اور سفارتی چیلنجوں کو پرکھنے سے جوڑا جارہا ہے۔

تحریک انصاف کے زیر عتاب آنے کی وجہ سے ملک کے سیاسی گڑھ پنجاب اور پی ٹی آئی کے گڑھ خیبر پختونخوا میں کئی سیاسی تنظیموں نے جنم لیا ہے۔ یہ ابھرتی ہوئی چھوٹی جماعتیں مرکز ، پنجاب اورخیبرپختونخوا میں فیصلہ ساز ثابت ہو سکتی ہیں۔

یہ تمام عوامل 2024 کے عام انتخابات کو ملک کی انتخابی تاریخ کے سب سے زیادہ پیچیدہ اور متنازعہ انتخابات بناتے دکھائی دیتے ہیں۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک کی سیاست اس نہج پر پہنچ گئی ہے جہاں کوئی ایک سیاسی جماعت اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی، جس کے باعث سیاسی بقاءکے لیے فوج پر انحصار میں اضافہ ہو جائے گا۔

عمران خان اپنے دورِ حکومت میں ایسی صورتحال کا سامنا کر چکے ہیں۔تاہم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نواز شریف اپنی مختصر لیکن جامع مہم پر مکمل کمان رکھتے ہیں اور وہ پنجاب میں ن لیگی ووٹرز کو متحرک کرنے کی پوری سعی کر رہے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو بھی عوامی اجتماعات سے خطاب کے ذریعے اپنی جماعت کے لیے عوامی حمایت کے حصول کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔

انتخابات 2024ءکے حوالے سے عوامی سطح پر مختلف سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں اور یہ پوچھا جاتا ہے کہ دو سابق وزیر اعظم اور صدر، نواز شریف اور آصف علی زرداری میں سے کون بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) اور سندھ میں متحدہ قومی موومنٹ،پاکستان (ایم کیو ایم۔پی)، خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف پارلیمنٹیرین اور پنجاب میں استحکام پاکستان پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم (پی ایم ایل۔ق) جیسی سیاسی جماعتوں سے بہتر انداز میں فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں ہوں گے۔

انتخابات 2024ءکے لیے اپنا انتخابی نشان ”بلا“ اور چیئرمین عمران خان کو کھونے کے بعد بطور پارٹی پی ٹی آئی کے ممکنہ مستقبل کے بارے میں بھی کافی تجسس پایا جاتا ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر تحریک انصاف کی اعلیٰ سیاسی قیادت پارٹی کے گزشتہ تین ماہ کا ازالہ کرتی ہے تو متعدد عوامل تحریک انصاف کی سیاسی ساکھ اور مقبولیت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

مبصرین کی جانب سے کسی بھی ”پسندیدہ جماعت“ کی حکومت کے قیام میں مقتدر حلقے کا ممکنہ کردار یا غیر جانبدار رہنے پر بھی بھرپور بحث اور گہری دلچسپی دیکھنے میں آ رہی ہے۔

ملکی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو دیکھا جا سکتا ہے کہ 2008 کے انتخابات میں دونوں شریف برادران کو نااہل قرار دینے میں عدالتوں نے اہم کردار ادا کیا اور وہی منظر نامہ دہرایا جا سکتا ہے۔

انتخابات 2024 میں مریم نواز شریف کا کردار پہلی انٹری کی حیثیت اہم رہے گا کیونکہ وہ پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ بننے کا خواب دیکھ رہی ہیں۔

تاہم ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ مریم نواز ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اہم کردار ادا کرنے کا انتخاب کریں گی یا مرکز میں اہم کردار ادا کرنے کو ترجیح دیں گی۔لیکن کسی بھی بڑے عہدے کی سربراہی اور تجربے کا فقدان اُن کے لیے پنجاب میں اہم مقام حاصل کرنے کی اس کی کوشش میں رکاوٹ ثابت ہو سکتا ہے۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آیا پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں شامل ہوں گے یا پھر وہ ذیلی عہدے پر رہنے کو ترجیح دیں گےجبکہ ان کے والد آصف علی زرداری صدر پاکستان کے اہم عہدے کے لیے سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔

سربراہ جمعیت علمائے اسلام-فضل (جے یو آئی-ایف) وپاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) ، مولانا فضل رحمان خیبرپختونخوا میں اپنی پارٹی کی موجودہ صورتحال بارے فکر مند دکھائی دیتے ہیں

کیونکہ جے یو آئی صوبے میں مطلوبہ حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ پی ڈی ایم کا اتحاد بننے پر حکومت میں بھی مولانا فضل الرحمان کے کردار پرسوالات اُٹھائے جاتے رہے ہیں جو اُن کی سیاسی جماعت کے مستقبل کے خوابوں کو داو پر لگا سکتا ہے۔

انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے بہت زیادہ بے یقینی پائی جاتی ہے، لیکن یہ طے ہو چکا کہ عام انتخابات منعقد کیے جائیں گے اور غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی نہیں کیے جائیں گے۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ کچھ اہم سیاسی شخصیات، خاص طور پرتحریک انصاف کی قیادت مختلف متنازعہ مقدمات کے باعث مستقبل قریب میں جیلوں میں رہ سکتی ہیں۔

ان مقدمات کے نتیجے میں یہ سیاسی رہنما بالخصوص عمران خان انتخابی دوڑ سے باہر ہو گئے ہیں۔

بہرحال انتخابات کے انعقاد اور اس کے نتائج سے قطع نظر، حالیہ مہینوں میں تحریک انصاف کے خلاف کیے جانے والے کریک ڈاﺅن جس سے پارٹی کی سیاسی ساکھ کو سخت نقصان پہنچا، کی روشنی میں اسے مکمل شفاف انتخاب قرار دینا مشکل دکھائی دیتا ہے۔

گزشتہ چند ماہ کے دوران تحریک انصاف کی اقتدار میں واپسی کے امکانات دکھائی دیتے تھے ، لیکن اب سیاسی جماعت کو ان کے زیادہ تر اعلیٰ قیادت کے جیلوں میں ہونے، سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے یا پھر استحکام پاکستان پارٹی یا پی ٹی ائی پارلیمنٹیرین میں شمولیت کے باعث یہ تقریبا ناممکن ہوچکا ہے۔

اس ضمن میں بڑی پیشنگوئیاں تو ممکن نہیں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ثابت ہو گی جس کے باعث ایک نیا کمزور حکمران اتحاد تشکیل پائے گا ، جس سے طاقتورحلقے جو کہ بظاہر اپنا سیاسی اثر و رسوخ برقرار رکھنا چاہیں گے، فائدہ حاصل ہو گا۔

پاکستان کی سیاسی پنڈت چہ مگوئیاں کر رہے ہیں کہ آیا 2024 کے انتخابات دو طرفہ ہوں گے یا تین طرفہ، تاہم یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا تحریک انصاف مطلوبہ نتائج حاصل کر پائے گی کہ نہیں۔

آئندہ عام انتخابات میں مذہبی جماعتوں کا کردار بھی اہم دکھائی دیتا ہے جس میں پنجاب میں ٹی ایل پی، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں جمعیت علمائے اسلام (ف) ، کراچی اور خیبرپختونخوا کے بعض علاقوں میں جماعت اسلامی قابلِ ذکر ہیں۔

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی کراچی میں موجودہ پوزیشن اچھی دکھائی دیتی ہے، جبکہ استحکام پاکستان پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ق) پنجاب میں قدم مضبوط کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ پنجاب کے سیاسی منظرنامہ کی تخلیق میں آئی پی پی اور مسلم لیگ (ق) اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔

جس طرح بلوچستان میں جے یوائی ایف اور بی اے پی کا کردار نمایاں ہے، اور دونوں جماعتیں قومی سطح پر بااثر ہوں گی۔ جب کہ ایم کیو ایم پی کی سیاست کا اثرورسوخ کراچی تک محدود ہے۔

خیبر پختونخوا جو تحریک انصاف کا مضبوط گڑھ خیال کیا جاتا ہے میں پرویز خٹک کے پاس اپنی نئی سیاسی جماعت کواگے بڑھانے کا اچھا موقع ہے۔ بلوچستان میں بی اے پی یا پنجاب میں آئی پی پی کی طرز پر ایک نئی پارٹی کے وجود میں آنے کا امکان ہے۔

ہم انویسٹی گیشن ٹیم کو بہت سے پنڈتوں کی جانب سے دی جانے والی معلومات کے مطابق یہ بات باعث افسوس ہے کہ پاکستان میں ہونے والے انتخابات قابل تسلی نہیں ہوں گے۔

اُن کا کہنا تھا کچھ مقتدرحلقوں کا جومشتبہ کردار 2018 کے انتخابات میں دیکھا گیا تھا وہ شاید 2024 کے عام انتخابات میں اتنا نظر نہ آئے لیکن الیکشن سے پہلے کی صورتحال کچھ 2018 جیسی ہی ہے۔

کچھ حلقے ایسے سیاسی رہنماﺅں اور سیاسی جماعتوں کو سائیڈ لائن کرنے کی خواہاں ہے جو ملکی سیاست میں فوج کے عمل دخل اور مداخلت کو چیلنج کرتی رہی ہے۔

2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کو ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا جب کہ 2024 کے انتخابات سے قبل تحریک انصاف ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرتی دکھائی دیتی ہے۔

کراچی کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی ، جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان چار طرفہ مقابلہ متوقع ہے۔

ناقدین کی طرف سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی آئندہ انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے لیے برابری کے مقابلہ کی فضا فراہم کرنے کی صلاحیت پر بھی سوال اٹھائے جاتے ہیں۔

ایک عبوری اور غیر متنازع سیٹ اپ پر اتفاق رائے بھی بہت سے جواب طلب سوالات کو جنم دیتا ہے۔ بلوچستان کا سیاسی منظرنامہ پرانے خاکہ کی منظرکشی کرتا ہے، جہاں عمومی طور پر مرکز میں حکمران جماعت اپنے اتحادیوں کے ساتھ حکومت بناتی ہے۔ اب کی بار مسلم لیگ ن، اپنی حریف پی پی پی کو بلوچستان میں فیصلہ سازی کی اجازت دے سکتی ہے۔

پنجاب سے منتخب ہونے والے حکومت سازی میں کلیدی کردار ادا کریں گے، اور صوبے میں تحریک انصاف کی کمزور حالت کے پیشِ نظر اس کے زیادہ اثر انداز ہونے کا امکان نہیں ہے۔

پنجاب سے منتخب ہونے والوں کی طرف سے قومی سطح پر اور ممکنہ طور پر صوبائی سطح پر آئی پی پی کی حمایت کا زیادہ امکان ہے۔

یہ مقتدرحلقوں کے اثر و رسوخ، اس کے تحریک انصاف کو انتخابی عمل سے باہر رکھنے کی خواہش، خاص طور پر گزشتہ برس اور 9 مئی کے واقعات کے بعد پیدا ہونے والی پھوٹ پر پر زیادہ انحصار کرتا ہے۔

9مئی کے واقعے نے مونس الٰہی، فخر امام،محسن لغاری، میاں شفیق، حماد اظہر، عمران اسماعیل، علی زیدی اور کئی سیاستدانوں کو آئندہ الیکشن نہ لڑنے پر مجبور کر دیا۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کے مداحوں کی تعداد برقرار ہے، اور ان کے حمایتی کی تعداد میں کمی نہیں آئی ہے لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے تحریک انصاف سے ”بلے“ کے انتخابی نشان کو واپس لینے سے متعلق الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اپیل کی توثیق کے بعد صورتحال یکسر بدل گئی ہے۔

تاہم، 2018 میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے ان چندہ افراد اور خاندانوں پر انحصار کیا گیا،کچھ طاقتوروں کے دباوکی وجہ، خاص طور پر پنجاب میں ان کی حمایت کرنے کے امکانات کم ہیں۔

بہر حال، ان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان بھر کے شہری علاقوں میں پی ٹی آئی کی حمایت کی بنیاد مضبوط ہے، اور انتخابی نشان کھونے کے باوجود اس حمایتی بنیاد کا عمران خان اور تحریک انصاف کے علاوہ کسی کو ووٹ دینے کا امکان نہیں ہے اور 859 آزاد انتخابی امیدوار فتح کے لیے اپنے ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

آزاد امیدوار عمران خان اپنے اور اپنی پارٹی کے خلاف مزید تعزیری کارروائیوں کی پیش گوئی کرتے ہیں، جس سے وہ انتخابات میں حصہ نہ لینے کی صورت میں ووٹروں کی تعداد میں کمی کا باعث بن سکتے ہیں۔

ایسی صورت میں ٹرن آوٹ کا فائدہ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، استحکام پاکستان پارٹی اور دیگر جماعتوں کو ہوگا۔بعض سیاسی مفکرین کا دعویٰ ہے کہ 1953 کے بعد سے، پاکستان کی اصل طاقتورحلقوں نے ایک مقصد حاصل کیا ہے:

کسی بھی سویلین رہنما کو حمایت کی مقبول بنیاد کو مضبوط کرنے سے روکنا۔ ایچ ایس سہروردی اور فاطمہ جناح سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور عمران خان تک کے اہداف کئی برسوں میں ضرور بدل چکے ہیں

لیکن پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ سیاست دان جو قومی انتخابی اکثریت قائم کرنے کے لیے کافی تعداد میں حمایت حاصل کرنے کی دھمکی دیتے ہیں ان کا حجم کم کر دیا جاتا ہے۔ سیاسی طبقے کے درمیان پائی جانے والی تقسیم اور پھوٹ نے نظام کو چلانے والوں کی حمایت کی ہے۔

23-2022 میں پاکستان کو ایک آئینی بحران کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سیاسی کرداروں کا تاریخ سے سبق نہ سیکھنے کی خواہش تھی۔

تحریک انصاف کی جانب سے عدم اعتماد کے ووٹ کو ناکام بنانے کی کوشش اور پی ڈی ایم کی جانب سے آئین کے مطابق صوبائی انتخابات کرانے سے انکار کے علاوہ دیگر واقعات ، پاکستان کی سیاست کے لیے اجتماعی دیوالیہ پن کا باعث بنا ہے۔

سیاسی جماعتیں ماند یا مدہم ہو چکی ہیں، انتخابی عمل سے سمجھوتہ ہو چکا ہے، عدلیہ کے پاس “نظریہ ضرورت” ہے، اور میڈیا کو دبا دیا گیا ہے۔

کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو صرف چار ہفتے قبل سب سے بڑی مقبول سیاسی جماعت کو اس کے انتخابی نشان بلے سے محروم نہیں کرنا چاہیے تھا۔

9 مئی کے واقعات نے اسٹیبلشمنٹ کے روایتی کردار کو تقویت بخشی ہے اور پی ٹی آئی کے 14000 سے زائد سیاسی کارکنوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا، ان میں سے ہزاروں اب بھی عدالتی مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ آنے والے انتخابات میں مقتدر حلقوں کا کردار عمران خان کی انتخابی معرکے سے غیر حاضری کو یقینی بنانے اور انہیں اقتدار میں واپس آنے یا ایک موثر اپوزیشن بننے سے روکنے تک محدود ہو سکتا ہے۔

خاص طور پر فوجی تنصیبات پر حملوں میں ان کے مبینہ ملوث ہونے کے شبہات اور ‘پریشانی’ کی وجہ سے۔ کچھ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں انتخابات کا انتظام تاریخی طور پر انتخابات سے پہلے اور انتخابات کے بعد ہوتا رہا ہے، خاص طور پر 1988 کے بعد سے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سے لے کر ایم کیو ایم پی اور اب پی ٹی آئی تک پارٹیاں اور حکومتیں بنانا اور توڑنا عام بات ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال نے مسلم لیگ (ن) کے سپریم لیڈر نواز شریف کو پارٹی کے لیے مہم شروع کرنے کی اپنی پوزیشن پر چھوڑ دیا ہے، پارٹی کو کمانڈنگ پوزیشن پر لانے کے لیے کم از کم کئی ہفتے درکار تھے کیونکہ اس کی اہم اپوزیشن پارٹی پی ٹی آئی تحلیل ہو چکی ہے۔

اور اس کی اعلیٰ قیادت کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ مزید برآں، پنجاب میں سیاسی جنگ لڑی جا رہی ہے، جس میں پی ٹی آئی کا نشان ہار گیا، چاہے وہ کسی بھی شکل میں موجود ہو، آئی پی پی کی نئی قائم ہونے والی جماعت کے ساتھ مقابلہ کر رہی ہے۔

نیز مسلم لیگ (ق)، پی پی پی، اور آزاد امیدواروں. بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ سابق صدر آصف زرداری کبھی بھی ایسی مقبول شخصیت نہیں رہے جو ایک مضبوط مہم کی قیادت کر سکیں۔

بہت سے مبصرین کا یہ خیال ہے کہ پی ٹی آئی کا انتخابی نشان کھو جانے کے بعد آزاد امیدوار کنگ میکر بن جائیں گے اور پی ٹی آئی کے سینکڑوں امیدوار آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔

اگر قومی اسمبلی میں 40 سے 50 کے قریب آزاد امیدوار آتے ہیں تو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک نئی سودے بازی کی پوزیشن میں آجائیں گی کہ کون سی جماعت زیادہ سے زیادہ آزاد امیدواروں کو ساتھ ملانے میں کامیاب ہوتی ہے۔

فی الوقت، ن لیگ کو وفاق اور پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے مضبوط سیاسی جماعت سمجھا جا رہا ہے، جبکہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت برقرار رہنے کی توقع کی جا رہی ہے۔

خیبرپختونخوا میں جمعیت علمائے اسلام اگر خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف متوقع نتائج کے حصول میں کامیاب نہیں ہوتی تو صوبے میں جے یو آئی اسلام (ف)، مسلم لیگ ن، تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز کی مخلوط حکومت کی توقع کی جا رہی ہے جس میں ممکنہ طور پر عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی بھی حاصل کردہ سیٹوں کے لحاظ سے شامل ہو سکتی ہیں۔

بلوچستان میں مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی ، جمعیت علمائے اسلام ف کے درمیان وزارت اعلیٰ کے معاملے پر سیاسی تقسیم دکھائی دے سکتی ہے۔

عمران خان کی عدم موجودگی میں کوئی بھی نیا رہنما عملی انداز اپنانے کے باوجود بہترین نتائج دینے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ 9 مئی کے حملوں کی وجہ سے پارٹی شدید دباومیں ہے۔

تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی اس کے اہل تھے اور ممکن ہے یہ دونوں اپنے قائد عمران خان کے ساتھ مہینوں تک جیل میں رہے۔ روایتی انتخابی عمل جذبات کو ابھارتا ہے اور تحریک انصاف کی تحریک کے مزاحمت کی شکل میں دوبارہ وجود میں آنے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔

پاکستان میں اس سال ہونے والے انتخابات کے لیے ریکارڈ 28626 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں اور الیکشن کمیشن نے 17816 (16930 مرد اور 882 خواتین اور 4 خواجہ سرا) امیدواروں کو حتمی شکل دی ہے جو 859 جنرل نشستوں کے لیے الیکشن لڑ رہے ہیں۔

موجودہ انتخابات میں 89 امیدوار سامنے آ رہے ہیں جنہوں نے 1990 کے عام انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا،نیشنل اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے والے 1873 (1780 مرد اور 93 خواتین) امیدواران پارٹیوں کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔

3248 (3027 مرد اور 219 خواتین اور 2 خواجہ سرا) آزاد امیدوارکے طور پر نیشنل اسمبلی کی 266 جنرل نشستوں کے لیے الیکشن لڑ رہے ہیں۔

2024 کے انتخابات میں 4158 امیدوار (3976 مرد، 182 خواتین) پارٹی وابستگی کے ساتھ اور 8537 (8147 مرد اور 388 خواتین اور 2 خواجہ سرا) آزاد امیدوار 593 صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے لیے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ چار خواجہ سرا 2024 کا الیکشن بھی لڑ رہے ہیں۔

رواں سال انتخابات کے لیے جمع کیے گئے کل 28,626 کاغذات نامزدگی میں سے 3,240 امیدواروں کے کاغذات مسترد کیے گئے۔ یہ 2018 کے عام انتخابات کے برعکس ہے، جہاں جمع کرائے گئے کل 20,099 کاغذات نامزدگی میں سے 9 فیصد (1,893 امیدواروں) کو مسترد ہونے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

2024 کے انتخابات میں 3,240 میں سے 2,235 امیدواروں پر مشتمل کل امیدواروں میں سے 68 فیصد نے اپیلیں جمع کرائی ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2018 کے انتخابات میں، صرف 66 فیصد، یا 1,893 مسترد کیے گئے امیدواروں میں سے 1,227 نے اپیلوں کی پیروی کی۔

اس کے برعکس، 2013 کے انتخابات میں، محض 41 فیصد، یا 3،916 مسترد کیے گئے امیدواروں میں سے 1،618 نے اپیلیں دائر کرنے کا انتخاب کیا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ 2018 کے قومی اسمبلی کے 342 ارکان میں سے 143 نے یا تو مکمل طور پر اپنی سیاسی وفاداری تبدیل کر دی ہے یا پھر آزاد امیدواروں کے طور پر انتخاب لڑنے کا انتخاب کیا ہے۔

پارٹی وار تقسیم سے پتہ چلتا ہے کہ پی ٹی آئی سے 107 سابق ایم این ایز کی نمایاں رخصتی، جو ان کی کل طاقت کا 65 فیصد بنتی ہے، پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔

 

پی ٹی آئی کے 18 سابق ارکان مسلم لیگ (ن)، 13 نے آئی پی پی اور 11 نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔

پی ٹی آئی نے حکمت عملی کے ساتھ نئے امیدواروں کو متعارف کرانے کا انتخاب کیا، اس کی 75 فیصد لائن اپ انتخابی میدان میں نئے آنے والے ہیں۔ پارٹی کے 859 عام امیدواروں میں سے 441 امیدوار پہلی بار قومی سطح پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔

قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 77 فیصد امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور کر لیے گئے ہیں جب کہ 23 فیصد کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2024 کے عام انتخابات میں 859 عام نشستوں کے لیے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 2,620 امیدواروں میں سے 1,996 کے کاغذات نامزدگی منظور کیے گئے تھے۔

غیر یقینی صورت حال کے باوجود 2024 کے انتخابات انعقاد کے قریب ہیں اگرچہ بڑی پیشین گوئیاں مشکل ہیں، لیکن یہ واضح ہے کہ انتخابات کو قریب سے دیکھا جائے گا، اور ملک میں انتخابات کے بعد ایک نئی مدت کا انتظار ہے۔ جیسا کہ یہ ملک کی انتخابی تاریخ میں رہا ہے۔

تاہم ہم انویسٹگیشن ٹیم کی تحقیقات بتاتی ہیں کہ انتخابات 2024 کے بڑے ٹاکرے سولہ شہروں میں متوقع ہیں، ان حلقوں پر پچاس بڑے سیاسی برج ایک دوسرے کیخلاف انتخاب لڑرہے ہیں۔

لاہورسات بڑے مقابلوں کے ساتھ پہلے نمبرپرہیں، فیصل آباد، راولپنڈی، ملتان اورکراچی پانچ پانچ بڑے ٹاکروں کے ساتھ دوسرے نمبرپرہیں، کوئٹہ، گجرات، سرگودھا اور گوجرانوالہ کے تین تین حلقوں پر بڑے سیاستدانوں کا کانٹے کا مقابلہ ہے۔

پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان اور سیالکوٹ میں دودوبڑے ٹاکروں کے ساتھ چوتھے نمبرپرہیں، نوشہرہ، لاڑکانہ،بدین، پشین اورصوابی میں ایک ایک بڑے ٹاکرے کی توقع ہے،ہم انویسٹگیشن ٹیم نے ان حلقوں پر ووٹرز کے موڈ کو بھانپنے کی کوشش کی ہے۔

کون کس سے جیتے گا اور کون کس کو انتخابی دنگل سے باہر کرے گا، اسکا فیصلہ تو8 فروری کو ہوگا لیکن انکے حلقوں کی ایک تصویر حاضر ہے، کہیں ن لیگ کے تاحیات قائد نواز شریف کا تحریک انصاف کی یاسمین راشد اور کہیں پی پی چئیرمین بلاول بھٹو کا ن لیگ کے عطاتارڑ کے ساتھ ٹاکراہے۔

کہیں مریم نوازکا صنم جاوید اور کہیں شہباز شریف اورضیاالحق کے ساتھ کانٹے کا مقابلہ ہے، کہیں جمعیت کے سرابراہ فضل الرحمان تحریک انصاف کے علی امین گنڈاپورکے ساتھ مقابلہ کررہے ہیں۔

کہیں سابق صدرآصف زرداری کا جی ڈے اے کے شیرمحمد کے ساتھ سیاسی ٹکراوہے، کہیں آئی پی پی کے چیف جہانگیر کا مقابلہ تحریک انصاف کے عامرڈوگر سے ہے۔

کہیں سابق وزیراعظم یوسف گیلانی کا ن لیگ کے احمد حسن کا مقابلہ ہے، کہیں پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کے پرویزخٹک کا ٹاکرا تحریک انصاف شاہد خٹک سے ہے، کہیں تحریک انصاف کے سلیمان اکرم راجہ کا آئی پی پی کے عون چوہدری سے مقابلہ ہے، کہیں بلوچستان نیشنل پارٹی کے اخترمینگل کا مقابلہ ن لیگ کے حاجی ارض رفیق سے ہے،کہیں ن لیگ کے رانا ثنااللہ اپنے سیاسی حریف تحریک انصاف کے نثار جٹ سے ہے، کہیں ن لیگ کے خواجہ آصف نے تحریک انصاف کی ریحانہ ڈارکوسیاسی چیلنج دیا ہے، کہیں جماعت اسلامی کے امیرسراج الحق الیکشن لڑرہے ہیں اور کہییں آزاد امیدوارچوہدری نثارعلی خان کو ن لیگ کے راجہ قمرالسلام کا سامنا ہے
ہم ٹی وی کی تحقیقاتی ٹیم نے 859 لڑے گئے حلقوں میں سے ٹاپ 100 کا تجزیہ کیا ہے جہاں منجے ہوئے امیدواروں نے نئی بننے والی حکومت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ان امیدواروں کی 2018 اور 2013 میں انتخابی کارکردگی کے ساتھ ان کے پروفائلز مندرجہ ذیل ہیں۔

میاں نواز شریف

لاہور کے حلقہ این اے 130 سے مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کا مقابلہ تحریک انصاف کی یاسمین راشد سے ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے وحید عالم خان نے 2018 کے انتخابات میں یاسمین راشد کو شکست دے کر اس وقت کے حلقہ این اے 125 پر کامیابی حاصل کی تھی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے اقبال احمد خان، ایم کیو ایم پی کی سمیعہ ناز اور جے آئی کے صوفی خلیق احمد بٹ بھی اس بار یہاں دوڑ میں شامل ہیں۔ یہاں نواز شریف کی پوزیشن بہتر دکھائی دیتی ہے کیونکہ ان کی کلیدی حریف یاسمین راشد اس وقت سلاخوں کے پیچھے ہیں اور ان کی پارٹی نے بلے کا نشان بھی کھو دیا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری این اے 127 لاہور سے مسلم لیگ (ن) کے رہنما عطا اللہ تارڑ اور تحریک انصاف کے ظہیر عباس کھوکھر کے مدمقابل الیکشن لڑ رہے ہیں۔ 2018 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے این اے 200، ضلع لاڑکانہ سے الیکشن لڑا۔

انہوں نے 84,538 ووٹ حاصل کیے جب کہ ان کے مدمقابل متحدہ مجلس عمل کے راشد محمود سومرو نے 50,910 ووٹ حاصل کیے تھے۔ بلاول 33628 ووٹوں کی برتری سے کامیاب ہوئے۔

آصف علی زرداری

پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری این اے 207 شہید بینظیر آباد سے تحریک انصاف کے سردار شیر محمد رند بلوچ کے مدمقابلہ ہیں۔ 2018 کے انتخابات میں سابق صدر نے انہیں 47,024 ووٹوں کی برتری سے شکست دی اور اس بار پھر اس حلقے میں زرداری کا غلبہ نظر آ رہا ہے۔

پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے 2018 کے انتخابات میں این اے 213، ضلع بے نظیر آباد( I) سے حصہ لیا۔ انہوں نے اپنے حریف گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (GDA) کے سردار شیر محمد رند بلوچ کے مقابلے میں 101,370 ووٹ حاصل کیے، جنہوں نے 54,346 ووٹ حاصل کیے تھے۔ زرداری 47,024 ووٹوں کی برتری کے ساتھ فاتح قرار پائے۔


شہباز شریف

سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف این اے 132 قصورسے پیپلز پارٹی کی شاہین صفدراورتحریک انصاف کے سردارحسین ڈوگر کے مدمقابل الیکشن لڑ رہے ہیں۔اس حلقے میں اچھا مقابلہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے جس میں شہباز شریف اپنے مدمقابل امیدواروں پرشاید تھوڑی سی برتری لیتے نظر آرہے ہیں۔

اسی طرح این اے 123 لاہور (7) سے شہباز شریف تحریک انصاف کے افضل عظیم ایڈووکیٹ اور پیپلز پارٹی کے رانا ضیاء الحق کے مدمقابل ہیں۔

سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے 2018 کے انتخابات میں این اے 132، ضلع لاہور سے 95,864 ووٹ حاصل کیے، جبکہ تحریک انصاف کے امیدوار چوہدری محمد منشا سندھو نے 49,148 ووٹ حاصل کیے۔ اور یوں شہباز شریف 46716 ووٹوں کی برتری سے کامیاب ہوئے۔

مریم نواز شریف

مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف این اے 119 لاہورسے پیپلز پارٹی کے افتخار شاہد کے مدمقابل انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ تحریک انصاف کی حمایت یافتہ امیدوار شہزاد فاروق ہیں۔ مریم نوازشریف اس حلقے میں بظاہر ایک مضبوط امیدوار کے طور پر نظرآرہی ہیں۔

مولانا فضل الرحمان

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان تحریک انصاف کے علی امین گنڈا پور، پاکستان پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی اور مسلم لیگ (ن) کے وقار احمد خان کے مدمقابل الیکشن لڑیں گے۔ تحریک انصاف کے علی امین گنڈاپور کو بظاہر ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنے سیاسی مخالفین پر برتری حاصل ہے۔

2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے رہنما علی امین گنڈا پور نے جے یو آئی ف کے سربراہ کے مدِمقابل یہ نشست جیتی تھی۔ علاوہ ازیں جے یو آئی (ف) کے سربراہ این اے 265 پشین سے بھی عام انتخابات میں حصہ لینے جا رہے ہیں۔

جے یو آئی(ف )کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک یا بنوں کے اضلاع سے الیکشن لڑنے والے ہیں، جن میں سے زیادہ تر ان کے آبائی حلقے ہیں۔

2018 میں، فضل الرحمان نے دو حلقوں، این اے38 اور این اے39 سے الیکشن لڑا، اور ڈیرہ اسماعیل خان کی دونوں نشستوں سے ہار گئے۔ وہ تحریک انصاف کے رہنمائوں علی امین گنڈا پور اور یعقوب شیخ کے خلاف الیکشن ہار گئے تھے۔

محمود خان اچکزئی

چیئرمین پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے۔میپ) محمود خان اچکزئی کا مقابلہ این اے 263 کوئٹہ سے مسلم لیگ ن کے جمال شاہ کاکڑ، پی پی پی کے روزی خان کاکڑ، تحریک انصاف کے سالار خان کاکڑ اور جے یو آئی ف کے مفتی روزی خان سے ہے۔

سرفہرست تین امیدواروں کے درمیان سخت مقابلہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ این اے 266 سے محمود خان اچکزئی کا مقابلہ تحریک انصاف کے نذر محمد کاکڑ، اے این پی کے حاجی عبدالمنان خان درانی اور پیپلزپارٹی کے مولانا صلاح الدین ایوبی سے ہے۔ یہ مقابلہ بھی انتہائی سنسنی خیز ہے۔

پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی 2018 کے انتخابات میں اپنے حلقہ این اے 263 قلعہ عبداللہ، بلوچستان سے ہار گئے۔ انہوں نے 19,989 ووٹ حاصل کیے جب کہ اے این پی کے اصغر خان اچکزئی نے 21,417 ووٹ حاصل کیے اور انہیں 1,428 ووٹوں سے شکست دی۔

دوسری جانب محمود خان نے جمعہ کو قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 265 سے باضابطہ طور پر اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے ہیں۔ امیدواروں کی دستبرداری کے آخری دن کیا جانے والا یہ اقدام مولانا فضل الرحمان کے حق میں ایک اسٹریٹجک فیصلے کی نشاندہی کرتا ہے۔

اسد محمود

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما اسد محمود عام انتخابات میں این اے 243 ٹانک۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے تحریک انصاف کے داور کنڈی اور پیپلز پارٹی کے انور سیف اللہ خان کے مدمقابل ہیں۔ حلقے میں سخت مقابلہ کی توقع ہے اور 8 فروری کے انتخابات کے نتائج واضح کریں کہ اس حلقے میں کون فاتح ٹھہرتا ہے۔

جے یو آئی (ف) کے رہنما اسد محمود نے 2018 کا الیکشن ضلع ٹانک کے حلقہ این اے 37 سے لڑا تھا۔ انہوں نے تحریک انصاف کے امیدوار حبیب اللہ خان کے مقابلے میں 28,563 ووٹ حاصل کیے جنہوں نے 16,659 ووٹ حاصل کیے۔ اسد محمود 11 ہزار 904 ووٹوں کی برتری سے فاتح ٹھہرے۔

پرویز خٹک

بحیثیت سربراہ پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین(پی ٹی آئی ۔پی)، پرویز خٹک اپنا پہلا انتخاب این اے 33 نوشہرہ سے تحریک انصاف کے شاہ احد، اے این پی کے خان پرویز (خان بابا)، اے این پی کے خان پرویز (خان بابا) ، پیپلز پارٹی کے سلیم کھوکھر اور جماعت اسلامی کے عنایت الرحمان کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

اس حلقے کے ووٹرز تمام امیدواروں کے درمیان کیل کاٹنے کا مقابلہ دیکھیں گے۔ سربراہ پی ٹی آئی پارلیمنٹرینز و سابق رہنما تحریک انصاف پرویز خٹک نے 2018 کے انتخابات میں این اے 25، ضلع نوشہرہ سے حصہ لیا۔

انہوں نے پی پی پی کے امیدوار خان پرویز خان کے مقابلے میں 82,208 ووٹ حاصل کیے جنہوں نے 35,661 ووٹ حاصل کیے۔ پرویز خٹک 46547 ووٹوں کی برتری کے ساتھ کامیاب ہوئے۔

امیر حیدر خان ہوتی

عام انتخابات میں امیر حیدر اعظم خان این اے 22 مردان سے تحریک انصاف کے عاطف خان، جے یو آئی (ف) کے نیاز علی، پیپلز پارٹی کے عابد علی شاہ اور جماعت اسلامی کے سید کلیم باچا کے مدمقابل ہیں۔ حیدر ہوتی نے 2018 کے الیکشن میں تحریک انصاف کے عاطف خان کے مقابلے میں صرف 152 ووٹ لے کر برتری حاصل کی۔

حلقے میں کاٹنے کا مقابلہ متوقع ہے اور انتخابی نتائج ہی یہ بتائیں کہ کون کون فاتح ٹھہرتا ہے۔ اے این پی کے رہنما اور خیبرپختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ امیر حیدر اعظم خان نے 2018 کے انتخابات میں مردان( II) کے حلقہ این اے 21 سے حصہ لیا۔

انہوں نے تحریک انصاف کے رہنما محمد عاطف کے مقابلے میں 79,151 ووٹ حاصل کیے جنہوں نے 78,999 ووٹ حاصل کیے۔یوں حیدر ہوتی صرف 152 ووٹوں کی برتری سے فاتح قرار پائے۔

چوہدری نثار علی خان

سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان این اے 53 راولپنڈی سے تحریک انصاف کے کرنل (ر) اجمل صابر اور مسلم لیگ (ن) کے راجہ قمر الاسلام کے مدمقابل الیکشن لڑنے جا رہے ہیں۔ اسی طرح وہ این اے 54 راولپنڈی (III) سے تحریک انصاف کے ملک تیمور مسعود اور پیپلز پارٹی کے قمر عباس کے مدمقابل الیکشن لڑیں گے۔

این اے 53 میں چوہدری نثار علی خان اور راجہ قمر الاسلام کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے جبکہ این اے 54 میں ایک بار پھر مذکورہ تینوں امیدواروں کے درمیان سخت مقابلہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ بحیثیت ایک تجربہ کار سیاست دان، چوہدری نثار علی خان نے 2018 کے عام انتخابات میں پی پی10 (راولپنڈی-V) سے آزاد امیدوار کے طور پر پنجاب صوبائی اسمبلی کا الیکشن جیتا تھا۔

نثار علی خان نے 53,212 ووٹ حاصل کر کے نصیر الحسنین شاہ کو شکست دی، جو ایک آزاد سیاست دان ہیں جنہوں نے 22،263 ووٹ حاصل کیے۔

 

خالد مقبول صدیقی

خالد مقبول صدیقی عام انتخابات میں این اے 248 کراچی سے تحریک انصاف کے ارسلان خالد، پیپلز پارٹی کے محمد حسن خان اور جماعت اسلامی کے محمد بابر خان کے مدمقابل ہیں۔ خالد مقبول صدیقی کو بظاہر اپنے مخالفین پر برتری حاصل ہے۔

ایم کیو ایم پی کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے 2018 کا الیکشن کراچی سینٹرل( III) کے حلقہ این اے 255 سے لڑا۔

انہوں نے تحریک انصاف کے رہنما محمود باقی مولوی کے مقابلے میں 59,781 ووٹ حاصل کیے جنہوں نے 50,135 ووٹ حاصل کیے۔ اور یوں خالد مقبول صدیقی 9,646 ووٹوں کے فرق سے فاتح ٹھہرے۔

 

راجہ پرویز اشرف

راجہ پرویز اشرف این اے 52 راولپنڈی سے تحریک انصاف کے طارق عزیز بھٹی ایڈووکیٹ اور مسلم لیگ ن کے راجہ محمد جاوید اخلاص کے مدمقابل الیکشن لڑ رہے ہیں۔پرویز اشرف اور جاوید اخلاص کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے جہاں 8 فروری کے انتخابات فیصلہ کریں گے کہ کون فاتح قرار پاتا ہے۔

سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف نے راولپنڈیضلع کے این اے 58 سے 2018 کا الیکشن لڑا۔ انہوں نے تحریک انصاف کے امیدوار چوہدری محمد عظیم کے مقابلے میں 125,480 ووٹ حاصل کیے جنہوں نے 97,084 ووٹ حاصل کیے۔ پرویز اشرف 28 ہزار 396 ووٹوں کی برتری کے ساتھ فاتح ٹھہرے۔

قمر زمان کائرہ

پیپلز پارٹی کے قمر زمان کائرہ این اے 65 گجرات سے مسلم لیگ ن کے چوہدری نصیر احمد عباس سدھواورتحریک انصاف سید وجاہت کے مدمقابل ہیں۔ اس حلقے میں بھی سخت مقابلہ متوقع ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ 2018 کے انتخابات میں این اے70، ضلع گجرات میں تحریک انصاف کے سید فیض الحسن سے الیکشن ہار گئے۔

تحریک انصاف کے رہنما سید فیض الحسن 95 ہزار 415 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے جبکہ مسلم لیگ ن کے امیدوار چوہدری جعفر اقبال نے 67 ہزار 293 ووٹ حاصل کیے۔ کائرہ 42550 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔

 

سید خورشید احمد شاہ

سید خورشید احمد شاہ این اے 201 سکھرسے تحریک انصاف کے ستار چاچڑ، جے یو آئی (ف) کے مولانا صالح محمد اور جماعت اسلامی کے سلطان لاشاری کے مدمقابل الیکشن لڑیں گے۔ خورشید شاہ اس وقت بظاہر مخالفین پر حاوی دکھائی دے رہے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید احمد شاہ نے 2018 میں این اے 206، ضلع سکھر،سندھ سے الیکشن لڑا۔ خورشید شاہ نے تحریک انصاف کے امیدوار سید طاہر حسین شاہ کے مقابلے میں 84 ہزار708 ووٹ حاصل کیے، جنہوں نے 58 ہزار767 ووٹ حاصل کیے۔ یوں خورشید شاہ نے اپنے سیاسی حریف کے مقابلے میں 25,941 ووٹوں کی برتری حاصل کی۔

رانا ثناء اللہ خان

رانا ثناءاللہ خان این اے 100 فیصل آباد سے تحریک انصاف کے ڈاکٹر نثار جٹ اور پیپلز پارٹی کی سدرہ سعید کے مدمقابل الیکشن لڑیں گے۔نثار جٹ اور رانا ثناءکے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے لیکن اس حلقے میں مسلم لیگ ن کی برتری بہت کم ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثناءاللہ خان نے 2018 ءمیں این اے 106، فیصل آباد سے الیکشن لڑا، انہوں نے تحریک انصاف کے امیدوار نثار احمد کے مقابلے میں 106,137 ووٹ حاصل کیے، جنہوں نے 103,899 ووٹ حاصل کیے۔یوں رانا ثناءاللہ 2238 ووٹوں کی برتری کے ساتھ فاتح قرار پائے۔

خواجہ محمد آصف

خواجہ محمد آصف این اے 72 سیالکوٹ سے پیپلز پارٹی کے خواجہ اویس مشتاق اور تحریک انصاف کی ریحانہ امتیاز ڈار جو کہ عثمان ڈار کی والدہ ہیں کے مدمقابل الیکشن لڑنے جا رہے ہیں۔این اے72 سیالکوٹ میں سنسنی خیز مقابلہ متوقع ہے جیسا کہ گزشتہ 2018 کے انتخابات میں ہوا تھا۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ محمد آصف نے 2018 میں این اے 73، سیالکوٹ سے الیکشن میں حصہ لیا، انہوں نے تحریک انصاف کے امیدوار محمد عثمان ڈار کے مقابلے میں 117,002 ووٹ حاصل کیے، جنہوں نے 115,596 ووٹ حاصل کیے۔اس طرح سیالکوٹ کے اس مقابلے میں خواجہ آصف کو 1406 ووٹوں کی برتری حاصل ہوئی۔

احسن اقبال چوہدری

احسن اقبال چوہدری این اے 76 نارووال سے تحریک انصاف کے کرنل (ر) جاوید کھلون اور پیپلز پارٹی کے سخاوت مسیح کے مدمقابل الیکشن لڑنے جا رہے ہیں۔ بظاہر اس حلقے میں احسن اقبال کو غالب حمایت حاصل ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال چوہدری نے 2018 میں این اے78، ضلع نارووال(II) سے الیکشن لڑا۔ انہوں نے159,651ووٹ حاصل کیے جب کہ اُن کے سیاسی حریف تحریک انصاف کے امیدوار 88,250ووٹ حاصل کر سکے اور اس طرح احسن اقبال 71,401ووٹوں کی واضح برتری کے ساتھ فاتح ٹھہرے۔

عبدالعلیم خان

پیپلز پارٹی کے سید آصف ہاشمی اور تحریک انصاف علی اعجاز کے خلاف الیکشن لڑنے جا رہے ہیں۔ عبدالعلیم خان ایک مضبوط امیدوار نظر آتے ہیں جن کی اس حلقے سے کامیابی کا قوی امکان ہے۔ 2018 کے انتخابات میں عبدالعلیم خان این 129، لاہور میں اپنے مخالف مسلم لیگ ن کے ایاز صادق کے خلاف ہار گئے تھے۔

خرم دستگیر خان

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خرم دستگیر خان این اے 78 گوجرانوالہ(II) سے استحکام پاکستان پارٹی کے صدر عبدالعلیم خان این اے 117 لاہورسے پیپلز پارٹی کے حارث میراں اور تحریک انصاف کے مبین عارف ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ خرم دستگیر کو اپنے حلقے میں سیاسی حریفوں پر برتری حاصل ہے۔

خرم دسیگیر نے 2018 کے انتخابات میں این اے81، ضلع گوجرانوالہ سے انتخابات میں حصہ لیا اور تحریک انصاف کے رہنما چوہدری محمد صدیق کے مقابلے میں 130,978 ووٹ حاصل کیے، اسطرح خرم دستگیر نے صدیق کے مقابلے میں 42 ہزار 472 ووٹوں کی بھاری برتری حاصل کی۔

میر لشکری رئیسانی

این اے 263 کوئٹہ سے میر لشکری رئیسانی کا مقابلہ پی کے میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی، مسلم لیگ ن کے جمال شاہ کاکڑ، پی پی پی کے روزی خان کاکڑ، تحریک انصاف کے قاسم سوری/سالار خان کاکڑ اور جے یو آئی ف کے رکن صوبائی اسمبلی روزی خان کاکڑ سے ہے۔

تمام امیدوار کافی مضبوط ہیں اور اس حلقے میں حیران کن نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ سرفہرست تین امیدواروں کے درمیان سخت مقابلہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ 2018 کے انتخابات میں، بی این پی (مینگل) کے رہنما میر لشکری رئیسانی ، این 265، ضلع کوئٹہمیں تحریک انصاف کے رہنما قاسم خان سوری کے خلاف الیکشن ہار گئے تھے۔ قاسم سوری نے میر لشکری رئیسانی کے مقابلے میں 25,979 ووٹ حاصل کیے، یوں سوری نے 5,585 ووٹوں کی برتری حاصل کی اور عدالتوں کے حکم امتناعی پر پانچ سال گزارے۔

نوابزادہ شاہ زین بگٹی

قومی وطن پارٹی کے سربراہ نوابزادہ شاہ زین بگٹی این اے 252 سے مسلم لیگ (ن) کے میر دوستین خان ڈومکی، جے یو آئی (ف) کے حاجی نصیر احمد کاکڑ اور پی ایم اے پی کے سردار تیمور خان موسیٰ خیل کے خلاف عام انتخابات میں حصہ لیں گے۔ اس حلقے میں بگٹی اور ڈومکی کے درمیان سخت ترین مقابلہ متوقع ہے۔

شاہ زین بگٹی نے 2018 کا الیکشن این اے 259، ڈیرہ بگٹی ضلع سے الیکشن لڑا اور ایک آزاد امیدوار کے مقابلے میں 22,787 ووٹ حاصل کیے، اسطرح بگٹی نے اپنے مخالف کے مقابلے میں 1,221 ووٹوں کے معمولی فرق سے کامیابی حاصل کی۔

سردار ذوالفقار کھوسہ

سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ ڈیرہ غازی خان سے این اے 184 سے آزاد امیدوار کے طور پر مسلم لیگ ن کے عبدالقادر خان کھوسہ اور تحریک انصاف کے سیف الدین خان کھوسہ کے مدمقابل الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اس حلقے میں کاٹنے کا مقابلہ متوقع ہے۔ 2018 میں محمد امجد فاروق خان نے ذوالفقار کھوسہ 129 ووٹوں سے شکست دی تھی۔

غلام سرور خان

غلام سرور خان این اے 54 راولپنڈی سے تحریک انصاف کی عذرا مسعود اور پیپلز پارٹی کے قمر عباس کے مدمقابل الیکشن لڑنے جا رہے ہیں۔ سخت مقابلہ متوقع ہے کیونکہ مسلم لیگ ن نے اس حلقے میں استحکام پاکستان پارٹی کے ساتھ معاہدے کے بعد اپنا امیدوار کھڑا نہیں کیا ہے۔ 2018 کے انتخابات میں غلام سرورخان نے چوہدری نثار کے مقابلے میں 89,520 ووٹ حاصل کیے اور اسطرح غلام سرور کو 22,738ووٹوں کی برتری سے فتح حاصل ہوئی۔

شیخ رشید احمد

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد این اے 56 راولپنڈی سے اپنے حریف مسلم لیگ ن کے حنیف عباسی کے مدمقابل الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔شیخ رشید نے 2018 میں این اے 62، ضلع راولپنڈی جہاں انہوں نے دانیال چوہدری کے مقابلے میں 119,362 ووٹ حاصل کیے تھے، دانیال چوہدری نے 91,879 ووٹ حاصل کیے تھے۔ یوں شیخ رشید 27,483 ووٹوں کی برتری سے فاتح ٹھہرے۔

عمر ایوب خان

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمر ایوب خان این اے 18 ہری پور سے عام انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں ، جہاں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے محمد ایوب اور پیپلز پارٹی کے سید زوار حسین نقوی اُن کے مدمقابل ہیں۔ اس حلقے میں عمر ایوب خان کو اپنے مخالفین پر برتری حاصل ہے۔

عمر ایوب نے 2018 میںاین اے17، ضلع ہری پور سے الیکشن لڑا اور مسلم لیگ ن کے بابر نواز خان کے مقابلے میں 173,125 ووٹ حاصل کیے، جنہوں نے 133,158 ووٹ حاصل کیے۔ یوںعمر ایوب 39,967 ووٹوں کی برتری سے فاتح قرار پائے۔

خواجہ سعد رفیق

مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق عام انتخابات میں این اے 122 لاہورسے تحریک انصاف کے سردار لطیف کھوسہ اور پیپلز پارٹی کے چوہدری عاطف رفیقکے خلاف عام انتخابات میں حصہ لینے جا رہے ہیں۔ سعد رفیق اس بار اس حلقے میں بہتر پوزیشن میں نظر آ رہے ہیں۔

2018کے انتخابات میں تحریک انصاف رہنما عمران احمد نے این اے131، ضلع لاہورمیں کامیابی حاصل کی ، لیکن بعد ازاں ان کے اس نشست سے فارغ ہونے پر خواجہ سعد رفیق نے اسی حلقے سے ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔

منظوراحمد

باپ کے سینٹر منظور احمد کوئٹہ کے حلقہ این اے 262 سے عام انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جہاں اُن کے مدِ مقابل پیپلز پارٹی کے حاجی محمد رمضان اچکزئی، مسلم لیگ (ن) کے نواب سلمان خلجی اور تحریک انصاف کے سیف اللہ کاکڑ سے ہے۔ اس حلقے میں تمام امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔

جہانگیر خان ترین

استحکام پاکستان پارٹی کے چیئرمین جہانگیر خان ترین حلقہ این اے 149 لودھراں(ملتان) سے تحریک انصاف کے ملک عامر ڈوگر کے مدمقابل انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ چیئرمین استحکام پاکستان پارٹی لودھراں کے حلقہ این اے 155 سے بھی الیکشن لڑ رہے ہیں جہاں مسلم لیگ ن کے صدیق بلوچ اُن کے مدمقابل ہیں۔ دونوں حلقوں میں سخت مقابلہ متوقع ہے۔

سلمان اکرم راجہ

سلمان اکرم راجہ عام انتخابات 2024 میں این اے 128 لاہور سے پیپلز پارٹی کے عدیل غلام محی الدین اور استحکام پاکستان پارٹی کے عون چوہدری کے مدمقابل ہیں۔مذکورہ حلقے میں بظاہر سلمان اکرم راجہ کو اپنے مدمقابل پر معمولی سی برتری حاصل ہے۔

یوسف رضا گیلانی

سابق وزیراعظم و رہنما پاکستان پیپلز پارٹی سید یوسف رضا گیلانی این اے 148 ملتان سے 2024 کے عام انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جہاں مسلم لیگ ن کے احمد حسین دیہڑ اورتحریک انصاف کے تیمور ملک کے مدمقابل ہیں۔ مسلم لیگ ن کے ایم این اے احمد حسین ڈہڑ ان کے سخت ترین مخالف ہیں۔ حلقے میں سخت مقابلے کی توقع ہے۔

علی موسیٰ گیلانی

پاکستان پیپلز پارٹی کے سید علی موسیٰ گیلانی عام انتخابات میں این اے 151 ملتان سے مسلم لیگ ن کے عبدالغفار گوگر اور تحریک انصاف کی مہر بانو قریشی کے مدمقابل ہیں۔ حلقے میں سخت مقابلہ متوقع ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما سید علی موسیٰ گیلانی نے 2023 کے تازہ ترین ضمنی انتخابات کے دوران این اے157، ملتان سے الیکشن لڑا، انہوں نے تحریک انصاف کی امیدوار مہر بانو قریشی کے مقابلے میں 107,327 ووٹ حاصل کیے، جنہوں نے 82,141 ووٹ حاصل کیے۔ علی موسیٰ گیلانی نے اپنے سیاسی حریف کے مقابلے میں 25,186 ووٹوں کی برتری سے کامیابی حاصل کی۔

اختر مینگل

بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے محمد اختر مینگل عام انتخابات میں این اے 256 خضدارآزاد امیدواران شیفق منگل اور اسرار اللہ کے مدمقابل ہیں۔ مذکورہ حلقے میں سخت مقابلہ متوقع ہے۔

اختر مینگل نے 2018 کا الیکشن این اے 269 ضلع خضدار سے لڑاتھا۔ انہوں نے بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما کے مقابلے میں 53,183 ووٹ حاصل کیے، جو 19,797 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ مینگل اپنے مخالفین کے مقابلے میں 33 ہزار 386 ووٹوں کی برتری سے کامیاب ہوئے۔

ڈاکٹر فہمیدہ مرزا

سابق سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا این اے 223 بدین سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔ ان کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے حاجی رسول بخش چانڈیو اور تحریک انصاف کے عزیز اللہ سے ہے۔ اس حلقے میں ڈاکٹر مرزا کا مقابلہ اچھا لگتا ہے۔

بحیثیت سینئر رہنما گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے 2018 میں پیپلز پارٹی کے رہنما حاجی رسول بخش چانڈیو کے مقابلے میں 94,988 ووٹ حاصل کیے جنہوں نے 93,991 ووٹ حاصل کیے۔ یوں فہمیدہ مرزا 997 ووٹوں کی برتری سے فاتح ٹھہریں۔

 

جام کمال خان

مسلم لیگ ن کے جام کمال خان این اے 257 سے آزاد امیدوار اسلم بھوتانی، پیپلز پارٹی کے عبدالوہاب بزنجو اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے میر عالم نوشیروانی اور پی ٹی آئی کے میر علی احمد زہری کے مدمقابل الیکشن لڑیں گے۔ مقامی سروے کے مطابق اسلم بوٹانی اور جام کمال کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر جام کمال خان نے 2018 میں پی بی50، ضلع لسبیلہ سے آزاد امیدوار نصراللہ کے خلاف الیکشن جیتا، انہوں نے نصر اللہ کے مقابلے میں 38,885 ووٹ حاصل کیے، جنہوں نے 26,050 ووٹ حاصل کیے۔

عبدالقدوس بزنجو

پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے عبدالقدوس بزنجو کا مقابلہ نیشنل پارٹی کے خیر جان،  جمعیت علمائے اسلام (ف) کے خالد نذر، بلوچستان عوامی پارٹی کے مہر اللہ حسنی سے ہے۔

بزنجو، خالد نذر اور مہر اللہ بسنی میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ عبدالقدوس بزنجو نے 2018 میں بلوچستان عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر پی بی 44 ، ضلع آواران /پنجگور سے نیشنل پارٹی کے خیر جان کے خلاف الیکشن جیتا، انہوں نے خیر جان کے مقابلے میں 8,055 ووٹ حاصل کیے، جو 5,963 ووٹ حاصل کر سکے تھے۔

سید مراد علی شاہ

سید مراد علی شاہ سندھ کے حلقہ پی پی 77 جامشورو سے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے روشن علی بریرو کے مدمقابل ہیں۔ مراد علی شاہ کو اس حلقے میں اپنے سیاسی مخالفین کے مقابلے میں بظاہر برتری حاصل ہے۔ 2018 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے سید مراد علی شاہ نے پی ایس34، ضلع نوشہرو فیروزسے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے عبدالستار راجپر کے خلاف کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے 51,419 ووٹ حاصل کیے جب کہ عبدالستار راجپر 32,385 ووٹ حاصل کر سکے ، اور اس طرح مرداد علی شاہ کو 19,034 ووٹوں کی برتری سے فتح حاصل ہوئی۔

محمود خان

پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹرینز کے راہنما محمود خان این اے 4 سوات تحریک انصاف کے امیدوار کمال خان ایڈووکیٹ، عوامی نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر محمد سلیم خان اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رحیم اللہ کے مدمقابل الیکشن لڑیں گے۔

اگر مراد سعید الیکشن نہیں لڑتے تو مراد سعید کی جگہ کمال خان ایڈووکیٹ مذکورہ امیدواروں کے مدِ مقابل ہوں گے۔ پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کی نمائندگی کرنے والے محمود خان، 2018 کے انتخابات میں پی کے9، ضلع سوات (8) سے،عوامی نیشنل پارٹی کے محمد ایوب خان کو شکست دے کر فاتح کے طور پر سامنے آئے۔ محمود خان نے 25,697 ووٹ حاصل کیے جب کہ ایوب خان 11,509 ووٹ حاصل کر سکے۔

ڈاکٹر فاروق ستار

ڈاکٹر فاروق ستار این اے 241 کراچی سے تحریک انصاف کے خرم شیرزمان اور پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر مرزا اختر بیگ کے مدمقابل الیکشن لڑیں گے۔ فاروق ستار نے گزشتہ انتخابات میں حصہ نہیں لیا جب کہ تحریک انصاف کےخرم شیرزمان نے 38,884 ووٹ حاصل کیے تھے اوران کے مخالف امیدوارسید نجمی عالم 14,049 ووٹ حاصل کر سکے تھے۔

حلیم عادل شیخ

این اے 238 سے تحریک انصاف کے رہنما حلیم عادل شیخ پیپلز پارٹی کے ظفر جھنڈیر، مسلم لیگ ن کے ریحان قیصر اور متحدہ قومی موومنٹ( پی) کے صادق افتخار کے مدمقابل ہیں۔ حلیم عادل شیخ نے 2018 میں کے انتخابات میں پی ایس99، ضلع کراچی ایسٹ میں پیپلز پارٹی کے شہاب الدین کے خلاف کامیابی حاصل کی، انہوں نے 6,029 ووٹ حاصل کیے، جب کہ شہاب الدین نے 5,402 ووٹ حاصل کر سکے۔

شہرام خان ترکئی

پاکستان تحریک انصاف کےشہرام خان ترکئی این اے 20 ، صوابی سے عوامی نیشنل پارٹی کے وارث خان، جمعیت علمائے اسلام(ف) کے عبدالرحیم اور پیپلز پارٹی کے عثمان خان ترکئی کے مدمقابل انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس حلقے کے ہزاروں کی تعداد میں ووٹروں جو بظاہر کسی جماعت کے حمایتی نہیں کے بارے میں اندازہ کاری کافی مشکل اور پیچیدہ پہلو ہے۔

لہٰذ اس حلقہ کا انتخاب کامیابی کے دعویدار تمام امیداروں کیلئے ایک چیلنجنگ مقابلہ ہو گا۔تحریک انصاف کے شہرام خان ترکئی نے 2018 کے انتخابات میں پی کے47، ضلع صوابی سے عوامی نیشنل پارٹی کے امیر رحمان کے خلاف کامیابی حاصل کی تھی۔ شہرام ترکئی نے 34،851 ووٹ حاصل کیے، جب کہ امیر رحمان نے 21،161 ووٹ حاصل کر سکتے تھے۔

محمد عاطف خان

پاکستان تحریک انصاف رہنما عاطف خان این اے 22 مردان سے عوامی نیشنل پارٹی کے امیر حیدر خان ہوتی، جمعیت علمائے اسلام ( ف) کے نیاز علی اور پیپلز پارٹی کے عابد علی شاہ کے مدمقابل الیکشن لڑیں گے۔ مذکورہ حلقے سے انتخابات میں حصہ لینے والے تمام امیدواروں کے لیے یہ ایک مشکل مقابلہ ہو گا۔ عاطف خان نے 2018 کے انتخابات میں پی کے 50، ضلع مردان میں عوامی نیشنل پارٹی کے ہارون خان کے خلاف کامیابی حاصل کی۔ عاطف خان نے 25,888 ووٹ حاصل کیے، جب کہ ہارون خان 11,814 ووٹ حاصل کر سکے تھے۔

سراج الحق

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق این اے 6 ، لوئردیرسے انتخاب لڑرہے ہیں، جماعت کے امیر کو پی ٹی ائی کے بشیر خان، اے این پی کے حاجی بہادر شاہ اور جی یوائی ف کے محمد شیر خان مدمقابل ہیں۔

غلام احمد بلور

عوامی نیشنل پارٹی کے اہم رہنما غلام احمد بلور پشاورکے حلقے این اے 32، پشاور سے انتخاب لڑرہے ہیں، غلام احمد بلور کے مقابلے میں پی ٹی ائی کے آصف خان اور جے یو آئی ف کے حسین احمد مدنی الیکشن لڑرہے ہیں، پچھلے انتخاب میں پی ٹی ائی کے شوکت علی نے غلام احمد بلور کے پنتالیس ہزار چار سوانچاس ووٹوں سے شکست دی تھی۔

اسد قیصر

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر این اے 19 صوابی سے اپنے دو اہم مخالفین کے خلاف عام انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کے مدمقابل عوامی نیشنل پارٹی کے شاہنواز خان اور جمعیت علمائے اسلام ( ف) کے مولانا فضل علی ہیں۔ اسد قیصر کو بظاہر مقامی لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے 2018 کے انتخابات میں بھی 78،970 ووٹ لے کر اس حلقے سے کامیابی حاصلی کی۔ان کے مدمقابل فضل علی نے 34217 ووٹ ، مسلم لیگ ن کے سجاد احمد نے 26،664 اور عوامی نیشنل پارٹی کے محمد اسلام 26، 427 ووٹ حاصل کر سکے تھے۔

 

اعجازالحق

مسلم لیگ ضیاءکے اعجاز الحق این اے 55 راولپنڈیسے مسلم لیگ (ن) کے ملک ابرار مدِ مقابل انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ دونوں امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے اور دونوں ہی فتح کے دعویدار ہیں۔ تاہم مقامی لوگوں کے مطابق مذکورہ حلقے میں ملک ابرابر کو اپنے مدِمقابل امیدوار پر برتری حاصل ہے۔

سردار ایاز صادق

مسلم لیگ (ن) کے رہنما سردار ایاز صادق این اے 120 لاہور سے پیپلز پارٹی کے منیر احمد اور تحریک انصاف کے عثمان حمزہ اعوان کے مدمقابل انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ مقامی افراد کے مطابق اس حلقے میں سردار ایاز صادق اپنے سیاسی مخالفین کے مقابلے میں بہتر نظر آتی ہے۔ سابق سپیکر قومی اسمبلی اور رہنما مسلم لیگ (ن) سردار ایاز صادق نے 2018 کے انتخابات میں این اے 129 لاہور میں 103,091 ووٹ حاصل کیے جب کہ تحریک انصاف کے امیدوار عبدالعلیم خان کو 95,065 ووٹ ملےتھے۔یوں ایاز صادق 8026 ووٹوں کی برتری فاتح ٹھہرے۔

ریاض حسین پیرزادہ

مسلم لیگ (ن) کے ریاض حسین پیرزادہ این اے 164 بہاولپورسے تحریک انصاف کے اعجاز گہڈن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سید عرفان احمد گردیزی کے مدمقابل انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

2018 کے انتخابات میں ریاض حسین پیرزادہ این اے 171 بہاولپور میں اپنے مخالف چوہدری نعیم الدین وڑائچ کے خلاف حصہ لیا۔ ریاض حسین پیرزادہ نے 99,306ووٹ حاصل کیے تھے جب کہ نعیم الدین وڑائچ 88,519ووٹ حاصل کر سکے ۔ اس طرح ریاض پیرزادہ 10,787 ووٹوں کی برتری سے فاتح قرار پائےتھے۔

علی امین خان

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما علی امین خان گنڈا پور این اے 44، ڈی آئی خان سے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی کے مدمقابل الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ علی امین خان نے 2018 کے انتخابات میں این اے 38 ڈیرہ اسماعیل خان سے حصہ لیا۔علی امین خان نے 81,032 ووٹ حاصل کیے جب کہ جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار45,796 ووٹ حاصل کر سکے تھے، اس طرح علی امین کو 35,236ووٹوں کی برتری سے فتح حاصل ہوئی تھی۔

میاں اظہر

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما میاں اظہر این اے 129 لاہور سے مسلم لیگ (ن) کے حافظ محمد نعمان اور پیپلز پارٹی کے اورنگزیب برکی کے مدمقابل ہیں۔عدالت کی جانب سے حماد اظہر کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد پارٹی نے اُنہیں امیدوار نامزد کیا۔ میاں اظہر کے بیٹے حماد اظہر نے 2018 کے انتخابات میں این اے 126،لاہورسے الیکشن میں حصہ لیا اور فتح حاصل کی تھیں۔

حماد اظہر نے 105,825ووٹ حاصل کیے تھے جب کہ اُن کے مدمقابل مسلم لیگ (ن) کے مہر اشتیاق انور 102,700 ووٹ حاصل کر سکے تھے اور اس طرح حامد 3125ووٹوں کی برتری سے کامیاب قرار پائے تھے۔

مصطفی نواز کھوکھر

مصطفی نواز کھوکھر بحیثیت آزاد امیدوار وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے حلقہ این اے 47 اور این اے 48 سے اپنے سیاسی مخالفین مسلم لیگ (ن) کے رہنما ڈاکٹر طارق فضل چوہدری اور تحریک انصاف کے شعیب شاہین اور علی بخاری کے مدِ مقابل انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت سے انتخابات میں حصہ لینے والوں کے درمیان سنسنی خیز مقابلے کی توقع ہے

سردار مہتاب عباسی

سردار مہتاب عباسی آزاد امیدوار کے طور پر حلقہ این اے 16 ایبٹ آباد سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار مرتضیٰ جاوید عباسی اور تحریک انصاف کے علی اصغر خان کے خلاف انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ 2018 کے انتخابات میں مرتضیٰ جاوید عباسی نے اس حلقے میں اپنے مخالفین کے مقابلے میں ایک بڑی برتری سے کامیابی حاصل کی تھی۔

آفتاب خان شیرپاو

قومی وطن پارٹی کے آفتاب شیرپاوحلقہ این اے 23 چارسدہ سے اپنے سیاسی مخالفین تحریک انصاف کے انور تاج، مسلم لیگ (ن) کے جلال خان اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے حاجی ظفر علی خان اور دیگر کے مقابلے میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔

تحریک انصاف کے انور تاج نے 2018 کے انتخابات میں آفتاب خان شیرپاو کے مقابلے میں 59371 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس بار پھر ان کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوگا۔

تہمینہ دولتانہ

مسلم لیگ (ن) کی رہنما تہمینہ دولتانہ 2024 کے انتخابات میں این اے 158 وہاڑی سے تحریک انصاف کے طارق اقبال چوہدری کے مدمقابل ہیں۔ طارق اقبال چوہدری نے 2018 کے عام انتخابات میں تہمینہ دولتانہ کو 14000 سے زائد ووٹوں کے فرق سے شکست دی تھی۔ ان عام انتخابات میں ایک بار پھر دو قدیم سیاسی حریفوں کے درمیان سخت ٹکراوہوتا نظر آتا ہے۔

شہزادہ افتخار الدین

عام انتخابات 2024 میں حلقہ این اے 1چترال سے مسلم لیگ ( ن) کے شہزادہ افتخار الدین، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر محمد طلحہ محمود، تحریک انصاف کے عبداللطیف، جماعت اسلامی کے مولانا عبدالاکبر، پاکستان پیپلز پارٹی کے فضل ربی اور آزاد امیدواروں اسد الرحمان، محمد جاوید خان اور مختار نبی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ حلقے کے تمام امیدواروں کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔ 2018 کے عام انتخابات میں مولانا عبدالاکبر نے عبدالطیف کو ووٹوں کے ایک بڑے فرق سے شکست دی تھی۔

ایمان طاہر 

اٹک حلقے این اے 50 سے تحریک انصاف کی حمایت یافتہ امیدوار ایمان طاہر کا مقابلہ ن لیگ کے سہیل خان کے ساتھ ہو گا۔  اس حلقے میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے، پچھلے الیکشن میں اس حلقے سے پی ٹی ائی کے طاہر صادق نے 66 ہزار کے مارجن سے سیٹ نکالی تھی، بعد میں ضمنی انتخاب پر ن لیگ کے سہیل خان نے یہ حلقہ جیت لیا تھا

 

رپورٹنگ، ایڈیٹنگ، گرافکس، ڈائیزانگ اورنیوزڈیسک ٹیم
زاہد گشکوری، ایڈیٹرانویسٹگیشن ٹیم، ہم نیوزپاکستان
ابوبکر، رپورٹرانویسٹگیشن ٹیم، ہم نیوزپاکستان
شمس الحق، سینئرایگزیکٹو پروڈیوسرہم نیوز
غضنفرعباس، سینئیرپروڈیوسر ہم نیوز
دیباج کاظمی، سینئیرپروڈیوسر ہم نیوز
محمد ارشد خان، ایسویسی ایٹ پروڈیوسر اردو ویب ڈیسک
محمد آصف اور محمد جنید، گرافکس اورارٹس ہم نیوز


متعلقہ خبریں