جسٹس اعجاز الاحسن کے استعفے کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل میں بڑی تبدیلی

سپریم کورٹ supreme court

سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز الاحسن کے استعفے کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل اور جوڈیشل کمیشن میں بڑی تبدیلی ہوگئی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن کے استعفے کے بعد جسٹس منصور علی شاہ کو جوڈیشل کمیشن اور سپریم جوڈیشل کونسل ممبر مقرر کردیا گیا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن کے مستعفی ہونے کے بعد اب سپریم کورٹ میں خالی اسامیوں کی تعداد تین ہوگئی ہے۔

گلگت بلتستان، بالائی خیبر پختونخوا اور کشمیر میں بارشوں کی پیشگوئی

سپریم کورٹ میں تین ججز کی تعیناتی چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کرے گا۔جسٹس منصور علی شاہ دو سال تین ماہ کے بجائے تین سال ایک ماہ تک چیف جسٹس پاکستان کے منصب پر فائز رہیں گے۔

دوسری جانب چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس جمعہ کو صبح  ساڑھے11بجے تک ملتوی کردیا گیا ہے۔

کونسل نے کہا کہ اگر مظاہر نقوی کے وکلاء نے وقت مانگا تو شکایت گزاروں کو سنا جائے گا مظاہر نقوی چاہیں تو کونسل میں  پیش ہو کر اپنا موقف دے سکتے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اٹارنی جنرل معاونت کریں کیا معاملہ ختم ہوگیا،یہ استعفٰی کونسل کارروائی کے آغاز میں نہیں دیا گیا،کونسل کی جانب سے شوکاز جاری کرنے کے بعد استعفیٰ دیا گیا۔

خیبر پختونخوا ،میٹرک کے مارچ میں ہونے والے امتحانات ملتوی

ممکن ہے درخواستیں غلط ہوں اور جج نے دباو ٔپر استعفیٰ دیا ہو،جج کی جانب سے دباؤ پر استعفیٰ دینے سے ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا،یقینی طور پر جج کو عہدے سے ہٹانے کی کارروائی تو ختم ہو گئی۔

استعفیٰ دینا جج کا ذاتی فیصلہ ہے،ہمارے سامنے غیر معمولی صورتحال ہے،جج کی برطرفی کا سوال اب غیر متعلقہ ہوچکا ہے،ابھی تک کونسل نے صدر مملکت کو صرف رپورٹ بھیجی تھی۔

الزامات ثابت ہوجاتے تو کونسل صدر کو جج کی برطرفی کیلئے لکھتی،چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اس صورتحال پر آپ کی کیا رائے ہے۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز الاحسن مستعفی

کونسل نے اب کوئی نا کوئی فائنڈنگ تو دینی ہے،کوئی جج سپریم کورٹ کی ساکھ تباہ کر کے استعفیٰ دےجائے تو کیا اس سے خطرہ ہمیں نہیں ہو گا؟

اپنی تباہ ساکھ کی سرجری کیسے کریں گے؟کیا آئین کی دستاویز صرف ججز یا بیوروکریسی کے لیے ہے؟آئین پاکستان عوام کے لیے ہے۔

اس موقع پراٹارنی جنرل نے کہا  عوامی اعتماد کا شفافیت سے براہ راست تعلق ہے،کونسل کے سامنے سوال یہ ہے کہ جج کے استعفے کا کارروائی پر اثر کیا ہو گا۔

پیپلز پارٹی نے جنوبی پنجاب سے امیدواروں کا اعلان کر دیا

جج کو ہٹانے کا طریقہ کار رولز آف پروسجر 2005 میں درج ہے،سپریم کورٹ کے 2رکنی بینچ نے جون 2023 میں ایک فیصلہ دیا تھا۔

فیصلہ دیا تھا کہ جج ریٹائر ہو جائے تو اس کیخلاف کارروائی نہیں ہو سکتی،کیس میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کیخلاف شکایتی معلومات کونسل کو بھیجی گئیں۔

کونسل میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے شکایت پر کارروائی نہیں کی،ثاقب نثار کیخلاف کارروائی نا ہونے پر آئینی درخواست 2020 میں دائر ہوئی۔سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف درخواست پر فیصلہ 2023 میں ہوا۔

پیپلز پارٹی کے انور زمان خان، قمر زمان خان پی ٹی آئی پی میں شامل

چیف جسٹس نے کہا کہ ثاقب نثار کے معاملے میں تو کارروائی شروع نہیں ہوئی تھی جبکہ اب ہو چکی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اپنی نوعیت کا پہلا معاملہ ہے جس کا سامنا سپریم جوڈیشل کونسل کر رہی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سپریم جوڈیشل کونسل رائے نہیں دے سکتی، کارروائی کے آخر دن جج کو برطرفی کا پتہ چل جائے اور وہ استعفیٰ دے جائے تو کیا ہو گا؟اٹارنی جنرل کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کارروائی کے دوران جج کا استعفیٰ دے جانا اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے۔

نادرا نے پاک آئی ڈی موبائل ایپ متعارف کرا دی

سپریم جوڈیشل کونسل نے کہا کہ مظاہر نقوی چاہیں تو کونسل میں  پیش ہو کر اپنا موقف دے سکتے ہیں۔سابق جج مظاہر نقوی کے وکلاء نے وقت مانگا تو شکایت گزاروں کو سنا جائے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر مظاہر نقوی نے وقت طلب کیا تو تب تک گواہان کو سن لیں گے،جج اور سپریم کورٹ کی ساکھ کا سوال ہے۔

کونسل کے ایک ممبر نے نوٹ لکھ کر کہا عجلت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے،یہ جسٹس اعجاز الاحسن کا حق ہے کہ وہ رائے دے سکیں۔

کوئی بھی ہمیں یہ نہیں بتا رہا جلد بازی کیسے کی گئی،ہم نے پہلے 14 دن کا وقت دیا،پھر کہا الزامات کی تفصیلات فراہم کریں ہم نے مکمل تفصیل فراہم کی۔

صوابی، فائرنگ سے پی ٹی آئی کےضلعی رہنما شاہ خالد جاں بحق،ڈرائیورزخمی

پھر کہا گیا کونسل کی کارروائی اوپن کریں ہم نے کردی،سابق جج نے کافی خطوط بھی لکھے،سابق چیف جسٹس نے سابق جج کیخلاف شکایات کیلئے ایک سینئر جج کو معاملہ بھیجا۔

اسی دوران عدالتی چھٹیاں آگئیں،سینئر جج بیمار بھی رہے،2شکایات کا مکمل جائزہ لےکر اپنی رائے دی،ہمیں قانون کے مطابق کارروائی کیلئے طریقہ کار طے کر سکتے ہیں۔

ہمیں خود بھی الزامات سے بری کرنا ہے،سابق جج نے جواب جمع کرانے کیلئے ایک ہفتہ مانگا ہم نے 2 ہفتے سے زائد کا وقت دیا۔

دوران میچ بھارتی کرکٹر ہارٹ اٹیک کے باعث چل بسا

اگر ایک صاحب اب کونسل کی کارروائی میں نہیں آنا چاہتے ان کی مرضی ،کسی کو آ کر خود بتانا چاہیے تھا کہ جج صاحب مستعفی ہو گئے ہیں۔

جج صاحب اپنے کسی نمائندے کو بھیج دیتے،اگر سابق جج کونسل کی کارروائی میں حصہ لینا چاہیں تو لے سکتے ہیں۔جسٹس مظاہر نقوی اور ان کے وکیل کو کونسل کارروائی بارے آگاہ کیا جائے۔


متعلقہ خبریں