خیبر پختونخوا میں ورک پلیس ہراسمنٹ کی درج شکایات واپس کیوں لے لی جاتی ہیں؟


“آج صبح جب میں اپنے دفتر پہنچی تو ساتھیوں کی نظروں میں اجنبیت اور لبوں پر سرگوشیاں پائیں میری چھٹی حس نے مجھے فوری خبردار کردیا کہ یہ روئیے تین روز قبل میری جانب سے اپنے ایک آفیسر کے خلاف درج کروائی ورک پلیس ہراسمنٹ کی شکایت کا ردعمل ہیں۔

مجھے اگلے چند روز تک ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑا ، اس پر افسران بالا کی جانب سے معاملے کو رفع دفع کرنے پر زور اور بدنامی کا ڈر ، یہ سوچ کر کہ بات گھر تک پہنچی تو شائد ملازمت ہی نہ چھوڑنی پڑ جائے “میں نے اپنی شکایت واپس لے لی “یہ کہانی ہے روبینہ کی (فرضی نام ) جو پشاور کے ایک سرکاری ادرے میں ملازمت کر رہی ہیں۔

روبینہ نے تو اپنی ورک پلیس ہراسمنٹ کی شکایت کچھ ہی روز میں واپس لے لی تاہم پشاور کے ایک نجی دفتر میں تین سال تک ملازمت کرنےوالی سعدیہ ( فرضی نام ) نے شکایت رپورٹ کرنے کے کچھ عرصے بعد خود ہی استعفی دے دیا۔

سعدیہ نے اپنے تلخ تجربے کے بارے میں بتایا کہ افسر کی جانب سے کئی بار جنسی ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی میری عدم رضامندی انتظامی معاملات میں تنگ کئے جانے کا سبب بننے لگی ، ذہنی دباو بڑھا تو میں نے کیس اپنے ادارے کے سربراہ کو رپورٹ کردیا جس کے بعد ان کی جانب سے یقین دہانی کروائی گئی کہ میرے کام میں کوئی مداخلت نہیں کرے گااور میں اپنا کام جاری رکھوں ، مگر ساتھیوں کی چبھتی نظروں اورچہ میگوئیوں کو دیکھتے ملازمت چھوڑنا ہی بہتر سمجھا، ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی ورکر سلمی ( فرضی نام جنہوں نے ہراسانی کی شکایت کی تھی کہتی ہیں ہراسمنٹ رپورٹ کرتے وقت اور بعد میں دونوں صورتوں میں اداروں کے سربراہان کی جانب سےدباو ڈالا جاتا ہے کہ آپ بار بار سوچیں کہ اگر آپ یہ سب رپورٹ کریں گی تو کام تو آپکو یہیں کرنا ہے ، آپکا خاندان ہے آپکو روز باہرنکلنا ہے، نتائج پر نظر رکھیں ، یہ سب باتیں ایسی ہیں جنہوں نے مجھے اور ہراسانی کا شکار دیگر خواتین کو اپنی شکایات واپس لینے پر مجبور کیا ان سب خواتین کے تجربات اپنی جگہ لیکن ! کیا کام کی جگہ پر ہراسانی کی شکایت کرناتمام خواتین کے لئے اتنا ہی چیلنجنگ ہے ؟کیا مروجہ قانون کے تحت انہیں تحفظ کی یقین دہانی نہیں کروائی جاتی ؟

خیبر پختونخوا میں ملازمت کی جگہ پر ہراسانی کے حوالے سے کون سے قوانین موجود ہیں اور یہ کن حالات میں لاگو ہوتے ہیں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

ورک پلیس ہراسمنٹ کا قانون

پاکستان میں 2010سے ورک پلیس یا کام کی جگہوں پر خواتین کو ہراسانی سے تحفظ دینے کے لئے “پروٹیکشن فرام ہراسمنٹ آف ویمن ایٹ ورک پلیس “ قانون منظور کیا گیا ، تاہم خیبر پختونخوا میں یہ ادارہ آٹھ سال کی تاخیر کے بعد دسمبر 2018 میں قائم کیا گیا جس کے بعد جنورئ 2019میں رخشندہ ناز کو بطور صوبائی محتسب تعینات کیا گیا ، ہم نیوز سے خصوصی گفتگو میں رخشندہ ناز نے بتایا کہ سال 2022میں انہیں 2021کے ہراسانی کی دگنی شکایات موصول ہوئیں مقابلے میں گذشتہ برس کام کی جگہ پر ہراسانی کے 55جبکہ رواں برس 116کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں اب تک درج ہونے والی کل کمپلینٹس کی تعداد 1000ہے، جن میں 40فیصد وراثتی مسائل ، جبکہ 40فیصد ہی ڈومیسٹک وائلنس ( گھریلو تشدد) اور جنسی زیادتی سے متعلق کیسز ہیں انہوں نے بتایا کہ لوگوں کو یہ فرق سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صوبائی محتسب کے پاس کس قسم کی شکایات کو لے جایاجاسکتا ہے ہم یہ بتانے کی کوشیش کر رہے ہیں کہ ہمارا کام ملازمت کی جگہ پر جسمانی اور ذہنی طور پر پریشان کئے جانے کے خلاف تدارک ہے، گھروں کے اندر ہونے والی مارپیٹ اور خانگی مسائل کو حل کرنا ان کے دائرہ اختیار میں نہیں تاہم ایسے کیسز کو وہ متعلقہ اداروں جن میں پولیس ، ایف آئی اے ، کورٹس اور سائبر کرائم شامل ہیں تک ریفر کردیتے ہیں انہوں نے مزید بتایا کہ 1000کیسسز میں ہراسانی کے کیسز 180تھے جن کی حقیقی نوعیت جاننے کے لئے جانچ پڑتال کی گئی تو 64کیسسز انتظامی معاملات میں ہراسانی کے پائے گئے یوں جسمانی یا جنسی ہراسانی کے مخصوص کیسز کی تصدیق شدہ تعداد 116 ہے

ہراسانی کا قانون کیسے کیسز کو تحفظ دیتا ہے اور کن شکایات پر کاروائی ہوسکتی ہے ؟

پاکستان میں 14جنوری 2022 کو ملازمت کی جگہ پر جنسی اور نفسیاتی طور پر پریشان اور ہراساں کئے جانے کے خلاف ترمیمی قانون منظور کیا گیا ہےاس سے قبل قانون کے تحت باضابطہ ادارے یا دفتر کےورکر کو ملازم تصور کیا جاتا تھا لیکن نئے مسودے میں ملازم کی قانونی تعریف میں فری لانسرز ،کھلاڑی ،طلبہ ، فنکار ، آن لائن کام کرنے والے ، گھریلو ملازمین ، ہفتہ ماہانہ وار اجرت والے ، پرفارمرز ، انٹرن ، کانٹریکٹ یا بغیر کانٹریکٹ کے کام کرنے والوں کے ساتھ ساتھ بنا اجرت کام کرنے والوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

قانون میں صرف خواتین ہی نہیں بلکہ مرد اور خواجہ سراوں کو بھی ایسی کسی شکایت کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق دیا جارہا ہے ، نئے قانون کےبعد صوبائی محتسب کے پاس دو مرد اور ایک خواجہ سرا بھی شکایت درج کرچکے ہیں جن میں ایک شکایت کنندہ کا تعلق محکمہ پولیس سے تھا جس نے بعد ازاں اپنی رپورٹ واپس لے لی۔

شناخت کی رازداری برتنے کی شرط پرپولیس اہلکار ظہور ( فرضی نام ) نے بتایا کہ اسے تھانے میں رپورٹ کے سلسلے میں آنے والی خاتون کی جانب سےکئی بار کہنی مار کر متوجہ کرنے کی کوشیش کی گئی تھی ، مگررپورٹ درج کرنےکے کچھ دن بعد ہی اس نے اپنی شکایت یہ سوچ کر واپس لے لی کہ اگر ساتھی اہلکاروں کو پتہ چلا تو وہ ان کا مذاق اڑائیں گے۔

اسی طرح صوبائی محتسب کے پاس ایک خواجہ سرا کی ساتھی مرد کے خلاف ہراسانی کی شکایت موجود ہے، 2022میں جنسی ہراسگی کو ایک ناقابل برداشت عمل قرار دیتے ہوئے جو ضابطہ اخلاق بنایا گیا ہے اس کے تحت یہ ضابطہ ادارے کے لئے “کام کرنے کی جگہ پر جنسی ہراسگی کے قانون “ کے حوالے سے تنظیمی ضروریات کی نشاندہی کریں گےاس ضابطہ اخلاق کا مقصد ، عورت ، مرد ، خواجہ سرا کے لیے کام کی جگہ کو محفوظ بنانا ہے جہاں وہ عزت نفس کے ساتھ اپنے کام سے مطمئن ہوکر باہمی عزت سے بھرپور کام کے ماحول کے مثبت اثرات کے سبب اپنی صلاحیتوں کو بہترین انداز میں بروئے کارلاسکیں جو ادارے کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کا باعث بنے گی۔

لہذا تمام ادارے رائج کئےگئے قوانین کے تحت تین یا پانچ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دیں جو شکایات پر نظر رکھیں اور معاملے کو رازدارانہ انداز میں کاروائی کرتے ہوئے آگے بڑھائے گی۔

کمیٹی کے ممبران شکایت کے مطابق یا شکایت کنندہ چاہے تو کمیٹی کو تحریری شکایت دے سکتے ہیں ، اس صورت میں کاروائی باضابطہ طور پر عمل میں لائی جائےگی۔

کمیٹی اپنی تفتیش کے نتائج اور اس کے مطابق تجویز کردہ سزا سے مجاز ادارے کے افسر یا سربراہ کو آگاہ کرے گی اور اس پر عملدرآمد کیا جائے گا،،سیکشن ٹو ایچ کے تحت کسی قسم کی ان چاہی جنسی تحریک ، کوئی ناپسندیدہ جنسی پیش قدمی ، جنسی خواہش کا اظہار کرنا ، زبانی یا تحریری فعل یا جسمانی رویہ جس کی نوعیت جنسی ہو ، جنسی طور پر تحقیری روئیے جو کارکردگی میں مداخلت کا باعث بنیں ، یا ڈرانے دھمکانے کی فضا پیدا کریں جو کام کے ماحول کو معاندانہ ناگوار بنا دیں ، یا کسی ایسی ہی فرمائش پوری نہ کرنے پر شکایت کنندہ کے لئے کام کو تکلیف دہ بنا دینا یا نوکری کو ایسی فرمائش سے مشروط کردین۔

یہ رویے ہر حالت میں ممنوع اور قابل سزا ہیں ، اس صورت میں بھی جب دفتری سرگرمیاں دفتر سے باہر سر انجام دی جارہی ہوں ، اگر کسی کے ساتھ یہ رویہ پیش آیا ہو تو وہ انکوائری کمیٹی کے کسی بھی ایک ممبر کے پاس اپنی شکایت درج کرسکتا ہے اور کمیٹی شکایت کنندہ کی مرضی کے مطابق غیر رسمی انداز میں یا باقاعدہ طور پر تفتیشی کاروائی کا آغاز کرسکتی ہے۔

منتظمین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ یہ سارا عمل انصاف اور دیانت داری سے کیا جائے اور شکایت کنندہ کے خلاف کسی قسم کی انتقامی کاروائی نہ ہو اس کے علاوہ کسی عورت کے لئے ایسے واقعات بیان کرنا جو اسے ناگوار گزریں ، اسے اسکینڈلئزائڈ کرنا ، سوشل میڈیاپر خواتین کے خلاف ساتھی ورکرز کی جانب سے پوسٹنگ کرنا ، حتی کہ ایسے لطیفے سنانا جس میں ہتک یا کسی قسم کا پیغام دیا جارہا ہو سب ہی ہراسانی کے زمرے میں آتے ہیں ۔

ہراسمنٹ رپورٹ کرنے والی خواتین کن حالات اور چیلنجز کا سامنا کرتی ہیں؟

عمومی تاثر یہی ہے کہ خواتین کے لئے ہیلتھ اور ایجوکیشن ایسے شعبے ہیں جہاں انہیں سب سے زیادہ محفوظ ماحول مئیسر ہوتا ہے تاہم یہ امر چونکا دینے والا ہے کہ سال دوہزار اکیس ، بائیس میں خیبر پختونخوا محکمہ برائے انسداد ہراسانی کو سب سے زیادہ شکایات انہی محکموں سے موصول ہوئیں رواں سال ہراسانی کے رپورٹ ہونے والے 116کیسسز میں 55ہیلتھ اور 30 سےزائدکا تعلق ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے ہے۔

صوبائی محتسب رخشندہ ناز نے بتایا کہ اس کی بڑی وجہ ان محکموں میں خواتین کی تعداد کا زیادہ ہونا ہے ، پشاور کے بڑے تدریسی اسپتال اور سرکاری سکول میں سالہا سال خدمات انجام دینے والی نرسسز اور اساتذہ کے مطابق ورک پلیس ہراسمنٹ رپورٹ کرنے اور انصاف ملنے تک اس پر ڈٹے رہنا بھی کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔

شبانہ (فرضی نام ) نے اپنی روداد سناتے ہوئے بتایا کہ میں گذشتہ چھبیس سال سے سرکاری ٹیچر کے طور پر ملازمت کررہی ہوں اور اپنی خدمات مختلف سکولوں میں ادا کرچکی ہوں ،لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ شعبہ خواتین کے لئے دیگر پیشوں کے مقابلے میں چار دیواری کے اندر ہونے کے سبب زیادہ محفوظ ہے مگر حقیقت اس سے مختلف ہے میں دوران کیریر کئی بار افسران کی جانب سے ہراسمنٹ کا شکار ہو چکی ہوں “مطالبات “پورے نہ کرنے کی صورت میں مجھے کئی بار جبری ٹرانسفرز کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے ، خاندان میں بدنامی کے ڈر اور ملازمت چھوڑنے کے خوف نے مجھے ذہنی مریض بنا دیا “ یہ کہتے ہوئے ان کی آواز بھرا گئی ” میں بتا نہیں سکتی کہ ہراسمنٹ رپورٹ کرنا بھی اتنا ہی مشکل اور تکلیف دہ ہےجتنا ہراساں ہونا اس حوالے سے قانون تو بنا دیا گیا ہے تاہم آج بھی ہراسانی کا سامنا کرنے والے سماجی دباو اور عدم تحفظ کا شکار ہیں “ ۔

اس ضمن میں عورت فاونڈیشن کی ریڈیڈنٹ ڈائریکٹر شبینہ ایاز کا کہنا ہے کہ یہ ادارے کے منتظمین کی ذمہ داری ہے کہ وہ کام کے ماحول کو ہر کام کرنے والے فرد کے لئے باعزت بنائیں اور جہاں مسلۂ ہو اسے غیر رسمی اور رازدارانہ انداز میں حل کرنے کی کوشیش کریں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ چونکہ ان کی تنظیم خواتین کے حقوق اور مسائل پر کام کرتی ہے تو ایسے کیسز ان تک بھی پہنچتے ہیں شبینہ کا کہنا تھا کہ دوہزار دس میں ورک پلیس ہراسمنٹ کے ایک پیچیدہ کیس کو انہوں نے خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی کچھ دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر رپورٹ کرنے سے لے کر انصاف کی فراہمی تک ڈٹ کرلڑا تھا تاہم وہ یہ بھی مانتی ہیں کہ “ایسے کیسز کو رپورٹ کرنا آسان کام نہیں اور اگر رپورٹ کر بھی لیا جائے تواپنے فیصلے پر قائم رہنا کسی امتحان سے کم نہیں ،لہذایہ منتظمین کی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ ورک پلیس ہراسمنٹ ضابطہ اخلاق کو اپنے ادارے کی پالیسی کا حصہ بنائیں اور اس پر بروقت اور رازدارانہ کاروائی کریں۔“

پشاور میں نرسنگ کے شعبے سے وابستہ انیتا ( فرضی نام ) کی کہانی بھی کچھ مختلف نہیں انیتا اس وقت پچپن برس کی ہو چکی ہیں ، ماضی میں جھانکتے اپنی روداد سناتے ان کئ آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں نرسنگ کے شعبے کے ساتھ یہ بدقسمتی رہی ہے کہ نہ صرف عوام بلکہ ہمارے ساتھ کام کرنے والے افسران اور ساتھی ملازمین بھی ہمیں اپنی جاگیر سمجھتے ہوئے کسی بھی قسم کا نازیبا رویہ اختیار کرنا معیوب نہیں سمجھتے ،نوجوانی میں ایک ہاؤس آفیسر کا مطالبہ پورا نہ کرنے پر مجھے انتقامی کاروائی کا سامنا کرنا پڑاجس کے بعد معاملے کو انتظامی رنگ دے کر ایک سال تک مجھے انکریمنٹ سے بھی محروم رکھاگیا ،اس زمانے میں چونکہ ہراسانی کا قانون موجود نہیں تھا تو میں کوئی قانونی کاروائی بھی نہیں کرسکی ، ہیلتھ ایجوکیشن میں ہی انیتا اور شبانہ جیسی درجنوں ملازمین ہراسمنٹ کیسز رپورٹ کرنے کے حوالے سے یک زبان تھیں کہ ایسے کیسزکو رپورٹ کرنے کے لئے پہلے تو پوری ہمت مجتمع کرنی پڑتی ہے اور کسی نہ کسی طرح وہ یہ ہمت کر بھی لیں تو بجائے یہ کہ جس کے پاس وہ اپنا رونا لے کر جاتی ہیں وہ ان کی شکایت سنیں الٹا ہراساں کرنا شروع کردیتے ہیں۔

محکمہ صحت کی سلمی معاشرتی دباو کے سبب شکایت واپس لینے کی ایک اور بڑی وجہ قوانین کا کیسز کی نوعیت کے مطابق موثر طور پر فعال نہ ہونے کو سمجھتی ہیں وہ کہتی ہیں کہ سرکاری سطح پر قانونی معاونت اور تحفظ جیسے عوامل انہیں اپنی شکایات درج کرنے کا حوصلہ دینے میں مددگار ہوسکتے ہیں۔

سلمی کی اس رائے پر پشاور ہائی کورٹ کی ایڈوکیٹ مہوش محب الہہ کاکا خیل کچھ یوں موقف دیتی ہیں “کہ قانونی طور پر ایسی شکایات کو تحفظ حاصل ہوتا ہے اور کسی صورت ان معلومات کو آشکار نہیں کیا جاتا لیکن ہراساں کرنے والے شکایت درج کرنے والوں کو دھمکیاں دیتے ہیں جس میں شدید ترین خطرہ جان کا ہوسکتا ہے ، ایک اور بڑا مسئلہ جس کی نشاندہی کی گئی ہے وہ ہے گواہوں کی عدم موجودگی پہلے تو کوئی گواہی دینے کو تیار نہیں ہوتا ، میرے پاس گذشتہ تین سال میں پچیس تا تیس کیسز آئے جن میں شکایت کنندہ ملازم پیشہ خواتین کے علاوہ جامعات کی طالبات بھی تھیں لیکن المیہ یہ ہوا کہ کیسز جمع کرنے کے بعدان کے بھائیوں اور باپ کو سنگین نتائج کی دھمکیاں ملیں جس کے بعدوہ کیسز فوری واپس لے لئے گئے۔

یہی نہیں ورک پلیس ہراسمنٹ کے پیچھے پورا مافیا ہوتا ہے جو ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں اور جب متاثرہ شخص ہراسانی رپورٹ کردے تو ان سب کی جانب سے یکساں دباو آتا ہےاس پر ایگزیکٹو پوزیشن کے لوگ تو ایسے کیسز کو متاثرہ افراد کے لیے ورک پلیس پولیٹکس کے ذریعے اور مشکل بنا دیتے ہیں اور کیس کا رخ ہی بدل دیا جاتا ہے، اس سارے ایکٹ میں رازداری اور تحفظ کی شقیں موجود ہیں لیکن افسوس کے ساتھ میں یہ تسلیم کرتی ہوں کہ ان شقوں کو وسائل کی عدم دستیابی کے سبب سو فیصد عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں “ دوسری جانب رخشندہ ناز نے مردوں کی شکایت واپس لینے کے حوالے سے موقف دیا کہ شائد انہیں رپورٹ درج کرنے کے بعد اپنی مردانگی پر حرف آنے کا خوف غالب آتا دکھائی دیا ہو جس کے سبب شکایت واپس لے لی جائے ،

ورک پلیس ہراسمنٹ ، سزائیں اور جرمانے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 509کے تحت جنسی ہراسانی اور چھیڑخانی پر تین سال قید اور پانچ لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں اکھٹی بھی دی جاسکتی ہیں ،31جنوری 2021 کے بعد ورک پلیس پر جنسی ہراسانی کو روکنے کے لئے سخت ضوابط نہ اپنانے والے اداروں اور دفاتر پر بھی ایک لاکھ روپے جرمانہ ہوسکتا ہے اور ایسے ضوابط نہ بنانے والے اداروں کے خلاف ملازمین ضلعی و صوبائی محتسب سمیت صوبائی گورنر اور صدر مملکت کے علاوہ سیٹیزن پورٹل پر بھی شکایت کرسکتے ہیں۔

خیبر پختونخوا صوبائی محتسب رخشندہ ناز نے ہم نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انکا ادارہ وقتا فوقتا تمام سرکاری و غیر سرکاری محکموں سے اس حوالے سےڈیٹا لیتا رہتا ہے ، خوش آئند بات یہ ہے کہ نوے فیصد سرکاری اداروں میں شکایتی کمیٹیاں بن چکی ہیں تو وہیں نجی کمپنیوں میں بھی وہ ستر فیصد سے زائد اداروں میں ان کمیٹیوں کے قیام میں کامیاب ہوئےہیں۔

انہوں نے بتایا کہ جن دفاتر میں کمیٹیاں نہیں بنیں وہاں انکےاہلکارآگاہی کے لئے خود جاکر یا پھر تحریری پیغام کے ذریعے اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ سربراہان فوری کمیٹی تشکیل دیں بصورت دیگر انہیں پچاس ہزار تا ایک لاکھ تک کے جرمانہ کا سامنا ہوسکتا ہے ۔

اس سلسلےمیں انکوائری کمیٹیز کی ٹرییننگ پر خاص توجہ دی جاتی ہے جن پر سماعت کا سلسلہ بھی باقاعدگی سے جاری ہے ، ہراسانی کے کیسز میں سزائیں اور جرمانے بھی کئے جارہے ہیں ,2022میں لکی مروت کے ایک سکول میں 12 خواتین کی 1مرد چوکیدار کے خلاف ہراسمنٹ کی شکایت کے کیس میں ملزم کو قید اور جرمانہ کی سزا ہوئی جس کانوٹیفیکشن سیکرٹری ایجوکیشن نے خود جاری کیا 2019 تا 2022 تک 85کیسز پر انکوائری ہوئی جن میں تین کیسز میں ملازمت سے برطرفی سات میں جرمانے کئے گئے جبکہ 131کیسسز کو دیگر اداروں کو ریفر کر کے حل کروایا گیا ۔

رخشندہ ناز نے انکشاف کیا کہ انتہائی مظبوط شواہد کے ساتھ فائل کیا گیا 32 ہیلتھ ورکرزکا اپنے افسران اور ساتھی ملازمین کی جانب سے ہونے والی ہراسمنٹ کا کیس معاشرتی دباو اور مخالف کی جانب سے دھمکیوں کے بعد دو بار دائر کرکے واپس لے لیا، ایڈوکیٹ مہوش کاکاخیل کہتی ہیں آکر ایسے کیسز کو تاریخ پر تاریخ دینے کے بجائے فوری طور پر حل کیا جائےتو متاثرہ افراد اور گواہ طویل عرصے کی اذیت اٹھانے سے بچ پائیں گے ایسی لینڈ مارک ججمینٹ دی جائیں کہ خواتین ڈرنے کی بجائے ایسے کیسز کو سامنے لائیں اور جرات کے ساتھ اپنے کیس پرڈٹی رہیں علاوہ ازیں ایسے کیسز میں ادارہ اور متاثرہ خواتین کا خاندان ان کا ساتھ دےمکمل رازداری برتنے کے ساتھ ساتھ انہیں قانونی وملازمت کے تحفظ کی یقین دہانی کروائے تو ہراسمنٹ سے پاک معاشرے کی تشکیل عمل میں آسکتی ہے جو اس قانون کو بنانے کا اصل مقصد ہے۔


متعلقہ خبریں