لاہور: پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار نابینا جج مقرر ہونے والے یوسف سلیم کا کہنا ہے کہ منزل کے حصول میں مشکلات آئیں لیکن جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے معذوری پر قابو پا لیا، ابھی منزل دور ہے، سپریم کورٹ کا جج بننا چاہتا ہوں۔
پنجاب یونیورسٹی کے ایل ایل بی (آنرز) کے گولڈ میڈلسٹ یوسف سلیم نے عدلیہ کے تحریری امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی تاہم انٹرویو کیمٹی نے بینائی سے محرومی پرانہیں نااہل قرار دیا تھا، اس امتحان میں ساڑھے چھ ہزارامیدواروں نے شرکت کی تھی۔
گزشتہ ماہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ان کی نااہلی کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ اور متعلقہ سلیکشن کمیٹی کو دوبارہ انٹرویو لینے کی ہدایات کی تھیں۔
یوسف سلیم کو اپنے پہلے انٹرویو کے وقت علم نہیں تھا کہ انہوں نے پہلی پوزیشن حا صل کی ہے، ان سے پوچھا گیا کہ نابینا پن کے ساتھ وہ بطورسول جج اپنی ذمہ داریاں کیسے پوری کریں گے، انہوں نے جواب میں کہا کہ وہ یہ تمام کام اپنے اسٹاف کی مدد سے کر لیں گے، اس کے علاوہ تنازعات کے حل کے لیے فیملی کورٹ، رینٹ کورٹ اور بینکنگ کورٹس وغیرہ بھی موجود ہیں جہاں وہ نابینا ہونے کے باوجود اپنی خدمات انجام دے سکتے ہیں۔
یوسف نے انٹرویو پینل کو بتایا کہ وہ دیوانی مقدمات کی پیروی کرتے ہیں تاہم ان سے زیادہ تر سوالات فوجداری مقدمات کے حوالے سے کیے گئے۔
18 اپریل کوکامیاب امیدواروں کی فہرست ویب سائٹ پر شائع کی گئی جس میں یوسف سلیم کا نام ہی موجود نہیں تھا، اس پرانہوں نے چیف جسٹس پاکستان سے اس کا نوٹس لینے کی اپیل کی۔
یوسف سلیم کی چار بہنوں میں سے بھی دو نابینا ہیں جن میں صائمہ سلیم نے 2007 میں سول سروس کا امتحان پاس کیا اور چھٹی پوزیشن حاصل کرنے کے بعد وزارت داخلہ کو منتخب کیا۔
وہ اقوام متحدہ میں نیو یارک اورجینیوا میں پاکستان مشن کے ساتھ خدمات انجام دیتی رہی ہیں جبکہ آج کل وہ وزیراعظم سیکرٹریٹ میں بطور ڈپٹی سیکرٹری کام کر رہی ہیں۔
یوسف کی دوسری نابینا بہن لاہور کی ایک یونیورسٹی میں تدریسی شعبے سے وابستہ ہیں جبکہ ساتھ ہی وہ پی ایچ ڈی بھی کر رہی ہیں۔