واشنگٹن: امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ افغان جنگ اسی سال ختم ہو۔ انہوں نے دو ٹوک انداز میں واضح کیا کہ طالبان کو بالآخر افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے ہوں گے۔
عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق وہ ’افغانستان مین امن کے امکانات‘ کے موضوع پر خطاب کررہے تھے۔
زلمے خلیل زاد کے مطابق دوحہ، قطر میں امریکہ طالبان امن مذاکرات حساس اور پیچیدہ تھے لیکن پاکستان نے سہولت کار کا مثبت کردار ادا کیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ افغانستان میں امن کی بحالی سے نہ صرف پورے علاقے اور وسطی ایشیا کو فائدہ ہوگا بلکہ پاکستان کو بھی بہت فائدہ پہنچے گا۔
عالمی خبررساں ادارے کے مطابق ایک سوال پرامریکی نمائندہ خصوصی نے کہا کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امن اور مفاہمت کے حوالے سے پاکستان نے جو کام کیا ہے ہم اس کو سراہتے ہیں۔ انہوں نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے ماضی میں بھی قریبی اوربہتر تعلقات رہے ہیں۔
افغان طالبان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ملا غنی برادر امن کے حامی کی شہرت رکھتے ہیں۔ ا نہوں نے کہا کہ ہماری بھی توقعات ہیں کہ وہ امن سمجھوتہ کرانے میں معاون و مدد گار ثابت ہوں گے۔
ماسکو امن کانفرنس کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ امریکہ ، ماسکو میں ہونے والی بات چیت کا خیرمقدم کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں فی الحال حتمی رائے دینا ممکن نہیں ہے۔
امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے کہا کہ افغانستان میں ہونے والے صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں تو بہتر ہے کہ بات چیت کسی سمجھوتے پر پہنچ جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
زلمے خلیل زاد نے واضح کیا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا مرکز و محورامریکی فوج کا انخلا نہیں بلکہ امن سمجھوتہ طے کرنا تھا جو سب کے بہترین مفاد میں ہوگا۔
امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل نے واضح کیا کہ امریکہ نے افغان تنازع کے خاتمے کے لیے امن عمل میں سہولت کاری کی کوششیں مزید تیز کردی ہیں۔
افغانستان میں گزشتہ 17 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا اگلا دور ایک مرتبہ پھر دوحہ قطر میں ہوگا۔ خبررساں اداروں کے مطابق بات چیت رواں ماہ ہی متوقع ہے۔
افغان صدر اشرف غنی اس ضمن میں واضح مؤقف رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جس بات چیت میں افغان حکومت اوراس کے نمائندے شریک نہیں ہیں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ طالبان قیادت اوران کے مذاکرات کار شروع سے اس خیال کے حامی رہے ہیں کہ کابل حکومت سے بات چیت نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
ماسکو امن مذاکرات پر بھی صدر اشرف غنی نے یہی مؤقف اپنایا تھا اور کہا تھا کہ ان کی حکومت کے بغیر جو بھی معاہدہ طے پائے گا اس کی حیثیت کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں ہو گی۔
امریکی نشریاتی ادارے ’وائس آف امریکہ‘ کے مطابق ایک اعلیٰ افغان عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس سے بات چیت میں کہا ہے کہ افغان حکومت امریکہ اورطالبان مذاکرات کے خلاف نہیں ہے لیکن وہ خواہش مند ہے کہ حتمی معاہدہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان طے پائے۔
وی او اے کے مطابق افغان عہدیدار نے تسلیم کیا کہ کابل حکومت طالبان کو موجودہ نظام کے لیے خطرے کے طور پر دیکھتی ہے جو گزشتہ 18 برسوں کی محنت کا نتیجہ ہے۔
ماسکو امن مذاکرات میں بھی طالبان مذاکراتی ٹیم کے سربراہ کے حوالے سے یہ بات چیت منطر عام پرآئی تھی کہ انہوں نے افغانستان کے موجودہ آئین کو متنازع اور ناجائز قرار دیا تھا اور ایک ایسے آئین کی تشکیل کی ضرورت پر زور دیا تھا جس کا چارٹر علمائے کرام نے بنایا ہو۔
وائس آف امریکہ کے مطابق افغان عہدیدار کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ امن ایسی شرائط پر قائم ہو جس سے افغان معاشرے کے لیے حاصل کی گئی کامیابیاں متاثر نہ ہوں۔
مؤقر امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے بھی گزشتہ دنوں افغان خواتین سے ہونے والی بات چیت پر مبنی ایک سروے شائع کیا تھا جس میں انہوں نے طالبان کے ساتھ ہونے والی گفتگو پر اپنی خوفزدگی کا اظہارکیا تھا۔
وی او اے کے مطابق واشنگٹن میں قائم ایک تھنک ٹینک ’مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ‘ سے منسلک جنوبی ایشیا کے امور کے ایک ماہراحمد ماجد یار کہتے ہیں کہ دنیا میں بیشتر تنازعات کا خاتمہ مذاکرات سے ہوا ہے اور افغان حکومت کو یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ امریکہ لامحدود وقت کے لیے افغانستان میں قیام نہیں کرسکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ امریکہ افغانستان میں اپنے اہداف حاصل کر چکا ہے اورفریقین اس پر متفق ہیں کہ 17 برس سے جاری اس لڑائی کا حل طالبان کے ساتھ مذاکرات میں ہے۔
وائس آف امریکہ کے مطابق ماجد یارکا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات صرف افغانستان تک محدود نہیں ہیں بلکہ خطے میں امریکہ کے کئی اور مفادات ہیں جن کے حصول کے لیے امریکہ کو پاکستان کے ساتھ اتحاد بنائے رکھنا ہے۔