پاکستان کو صنعتی معیشت کے بجائے کاروباری معیشت بنا دیا گیا ہے، شبر زیدی


اسلام آباد: نامور ماہر معیشت شبر زیدی کا کہنا ہے کہ 1970 کے بعد پاکستان کبھی بھی معاشی بحران سے نہیں نکل سکا، موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک وائٹ پیپر کے ذریعے حقیقی معاشی صورتحال عوام کے سامنے رکھ دے۔

ہم نیوز کے پروگرام ’ایجنڈا پاکستان‘ میں میزبان عامر ضیاء سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ  1992 سے ہم نے فیصلہ کیا کہ پاکستان کو صنعتی معیشت کی جگہ کاروباری معیشت بنا دیا جائے، اس کے بعد تجارت پر بالواسطہ ٹیکس لگا دیا گیا جس کی وجہ سے حقیقی ٹیکس ختم ہو گیا۔

انہوں نے کہا پاکستان کا اصل مسئلہ ٹیکس وصول کرنے اور ٹیکس ادا کرنے والوں کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے، جب تک ملکی معیشت کو دستاویزی شکل نہیں دی جائے گی اس وقت تک کچھ نہیں ہوگا۔

شبر زیدی نے کہا کہ 1970 کے بعد پاکستان کے کاروباری افراد نے اپنے ملک میں بہت کم سرمایہ کاری کی ہے، براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری (FDI) سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ پاکستانی خود مینوفیکچرنگ میں پیسہ لگائیں۔

موجودہ حکومت کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کچھ اچھے اقدام اٹھائے ہیں جن میں حوالہ ہنڈی کے ذریعے پاکستان سے باہر پیسہ بھیجنے پر روک لگانا شامل ہے۔

شبر زیدی نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کا ریکارڈ میں حجم 300 ارب ڈالر کے قریب ہے جبکہ حقیقی حجم 450 ارب ڈالر ہے۔ اس میں سے صرف 150 ارب ڈالر پر ٹیکس دیا جاتا ہے باقی معیشت ٹیکس نیٹ سے باہر ہے۔ جو لوگ ٹیکس نیٹ میں آتے ہیں وہ بھی پورا ٹیکس نہیں دیتے۔

پروگرام میں شریک حکومتی ترجمان برائے معیشت و توانائی ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا تھا کہ پاکستانی درآمدات کو تین بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ ایک تو بجلی کا مہنگا ہونا ہے، دوسرے گیس کی قیمتیں زیادہ ہیں اور تیسرا مسئلہ  یہ ہے کہ یہاں ٹیکس کی شرح بلند ہے۔ ان کی وجہ سے برآمدات کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومت نے نے کوئلے پر مہنگی بجلی پیدا کرنے کے ایسے معاہدے کیے جو پندرہ بیس برس تک جاری رہیں گے، اس کے علاوہ ایل این جی کے بھی مہنگے معاہدے کیے، ان معاہدوں پر نظرثانی کرنے کی کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا کہ ڈیڑھ سال قبل پاکستان کے پاس 17 ارب ڈالر کے قریب زرمبادلہ کے ذخائر موجود تھے لیکن روپے کی قیمت کم نہ کرنے کی اسحاق ڈار کی ضد نے انہیں خطرناک حد تک کم کر دیا، اگر وہ تھوڑا تھوڑا کر کے روپے کی قدر کم کرتے تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔

انہوں نے کہا کہ ہم ٹیکس کے ذریعے چار ہزار ارب روپیہ اکٹھا کرتے ہیں اور 1100 ارب روپیہ پبلک سیکٹر کمپنیوں میں ڈبو دیتے ہیں، معاشی مسائل حل کرنے کے لیے ’سرمایہ پاکستان کمپنی‘ بنائی جا رہی ہے جس کی سربراہی خود وزیراعظم پاکستان عمران خان کریں گے۔

سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو ڈیفالٹ کا مسئلہ درپیش تھا جو اب دور ہو چکا ہے تاہم ابھی طویل المدت منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ بجلی کا نظام، ایف بی آر کی اصلاح اور کاروبار کرنے کا ماحول ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری ملک میں آئے بلکہ نئی ٹیکنالوجی بھی میسر ہو۔

ڈاکٹر سلمان شاہ نے کہا کہ گزشتہ برس کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 18 ارب ڈالر تھا جبکہ اس سال 12 ارب ڈالر کی بات کی جا رہی ہے جو ایک اچھی خبر ہے۔


متعلقہ خبریں