مداخلت برداشت نہیں ، عدلیہ کی آزادی پر حملے کی صورت سب سے پہلے میں کھڑا ہونگا ، چیف جسٹس

چیف جسٹس (chief justice)

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ میں کسی کے پریشر میں نہیں آتا ، عدلیہ میں کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔ عدلیہ کی آزادی پر کسی قسم کا حملہ ہو گا تو سب سے پہلے میں اور میرے ساتھی کھڑے ہوں گے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی لارجز بینچ نے  اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط پر از خود نوٹس کیس سماعت کی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سمیت 8 ججز کو دھمکی آمیز خطوط موصول

مختلف وکلاء اور لاہور ہائی کورٹ بار نے بھی اس معاملے پر آئینی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں، 6 ججز نے عدلیہ کے معاملات میں خفیہ اداروں کی مداخلت کے الزامات لگائے ہیں۔

چیف جسٹس نے سماعت کے آغاز میں کہا کہ وہ زمانے گئے، جب کیس فکس کرنے کا اختیار چیف جسٹس کے پاس تھا، اب 3 رکنی کمیٹی ہے جو کیسز کا فیصلہ کرتی ہے، کمیٹی کو عدالت کا اختیار استعمال کرنا چاہیے نہ عدالت کو کمیٹی کا۔

سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلنز کے ٹرائل سے متعلق اپیلوں کا حکمنامہ جاری کردیا

چیف جسٹس نے حامد خان سے مخاطب ہو کر سوال کیا کہ آپ نے کوئی درخواست دائر کی ہے تو کمیٹی کو بتائیں، پٹیشنز فائل ہونے سے پہلے اخباروں میں چھپ جاتی ہیں، کیا یہ پریشر کے لیے ہے؟ میں تو کسی کے پریشر میں نہیں آتا، نئی چیز شروع ہو گئی ہے، وکیل کہہ رہے ہیں کہ از خود نوٹس لیں، جو وکیل از خود نوٹس لینے کی بات کرتا ہے اُسے وکالت چھوڑ دینی چاہیے۔

jسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا عدلیہ کی آزادی پرکسی قسم کا حملہ ہوگا تو سب سے پہلے میں اور میرے ساتھی کھڑے ہوں گے، عدلیہ کے کام میں مداخلت ہم پسند نہیں کرتے، اگر کسی کا اور ایجنڈا ہے کہ میں ایساکروں یا ویسے کروں تو چیف جسٹس بن جائیں، ہم دباؤ نہیں لیں گے، ہم ایڈمنسٹریٹولی کام کر رہے ہیں، ہم نے ایگزیکٹو سے چھپ کر گھر میں میٹنگ نہیں کی، چیمبر میں میٹنگ نہیں کی، ہم نے ایڈمنسٹریٹو حیثیت میں میٹنگ کی، اس میں قانون میں فرق واضح ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کا عمران خان کی بشریٰ بی بی سے ملاقات کروانے کا حکم

چیف جسٹس نے کہا ہم نےچیمبر یا گھر میں نہیں بلکہ سپریم کورٹ میں باقاعدہ میٹنگ کی، میٹنگ میں وزیراعظم بطور انتظامیہ بطور سربراہ مقننہ بیٹھے تھے، میٹنگ میں دوسری جانب عدلیہ کی انتظامیہ بیٹھی تھی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ تصدق جیلانی نے کہا آپ ٹی او آر فائنل کر کے دیں تو جواب دوں گا، تصدق حسین جیلانی سے دوبارہ پوچھا گیا، پھر نام کا اعلان کیا گیا، حکومت نے درخواست کی تھی کمیشن کے لیے سپریم کورٹ نام دے، یہ تاثر پیدا ہوا کہ جیسے یہ وفاقی حکومت کا بنایا ہوا کمیشن ہے، جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی نے پوچھا کمیشن کو کون سی جگہ دی جائے گی، انہیں بتایا گیا کہ فیڈرل شریعت کورٹ کی بلڈنگ میں کمیشن کام کرے گا۔

پشاور ہائیکورٹ نے مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین کو حلف اٹھانے سے روک دیا

جسٹس قاضی فائز کا کہنا تھا ہم نے ایسے نام تجویز کیے جن پر کم سے کم انگلی اٹھائی جائے، سوشل میڈیا پر اُن کے متعلق عجیب عجیب باتیں ہوئیں، مجھے بڑی شرمندگی ہوئی، کسی مہذب معاشرے میں ایسی باتیں ہوتی ہیں، سمجھ نہیں آ رہا ہم کس طرف جا رہے ہیں، اگر آپ کو کوئی اختلاف ہے تو لکھ سکتے تھے، اپنی باڈیزکو لکھ سکتے تھے، تصدق جیلانی شریف آدمی ہیں، وہ تو جواب نہیں دیں گے، وہ شریف آدمی تھے، انہوں نے انکار کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ ایسے ذاتی حملے ہوئے اور ایساماحول بنایا گیا تو کون شریف آدمی ایسی قومی سروس کرے گا، سوشل میڈیا سے عجیب عجیب باتیں سابق چیف جسٹس کے بارے میں شروع کر دی گئیں، مجھے شرمندگی ہو رہی تھی کہ ایک شریف آدمی جسے ہم نے کمیشن کیلئے نامزد کیا تھا اس پر حملے شروع ہو گئے۔

چیف جسٹس نے کہا خط میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ کے ادارے کے جواب کی ضرورت ہے، اس سے زیادہ ادارے کی جانب سے رسپانس نہیں دیا جا سکتا، فوری وزیراعظم سے ملاقات کی، فل کورٹ کی دو میٹنگز ہوئیں، عدالت میں ہم وزیراعظم کو نہیں بلا سکتے ان کو آئین میں استثنیٰ حاصل ہے، ہم نوٹس دیں گے تو سیکرٹری آ جائے گا، میں نے وزیراعظم کوبلا کر ملاقات کی اور واضح پیغام دیا عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ نہیں ہو گا۔

ججز کے معاملات اور عدالتی امور میں ایگزیکٹو کی مداخلت کو برداشت نہیں کیا جائیگا، چیف جسٹس

انہوں نے کہا کہ ہمارا کام نہیں کہ ہم کسی کی عزت اچھالیں، ایک طرف پارلیمان ہے، دوسری طرف صدر اور تیسری طرف حکومت بیٹھی ہے، ہم سب کا احترام کرتے ہیں اور سب سے احترام کی توقع کرتے ہیں، غلط کام کریں گے ہم فورا پکڑیں گے، نظام تب چلے گا جب ہر کوئی اپناکام کرے گا۔

انہوں نے کہا 6 ججزکہہ رہے ہیں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کوکہا مگر انہوں نےکچھ نہیں کیا، ہائیکورٹ کے پاس اپنے اختیارات ہیں، چیف جسٹس کیوں نہیں استعمال کر رہے، ہم مداخلت نہیں کرناچاہ رہے مگر ہم انہیں ان کے اختیارات سے آگاہ تو کر سکتے ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے ججز کے خط کے معاملے پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت 29 اپریل تک ملتوی کر دی۔

 


متعلقہ خبریں