درست عمر میں بچوں کے نہ بولنے پر نظر رکھیے


آج کل اکثروالدین شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کا بچہ بول نہیں رہا، اپنی درست عمر کے مطابق الفاظ ادا نہیں کررہا یا اشاروں سے چیزیں مانگتا ہے وغیرہ وغیرہ لیکن دوسری جانب کچھ والدین لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں اورکہتے ہیں کہ ”کوئی بات نہیں، اس کے بابا نے بھی دیر سے بولنا شروع کیا تھا تو یہ بھی دیر سے ہی بولے گا۔” یہ ایک عام فہم نظریہ ہے جو ہمارے معاشرے میں پروان چڑھ چکا ہے۔

اسی لاپرواہی کے باعث بچوں کے بولنے کی عمر کے مرحلے ضائع ہوجاتے ہیں اور وہ درست وقت پر بول نہیں پاتے لیکن توجہ طلب بات یہ ہے کہ بچوں کے نہ بولنے یا دیر سے بولنے کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں جو والدین کو پتہ ہونی چاہیئں، اس لیے اس بارے میں انہیں بہت دھیان دینے کی ضرورت ہے۔

یہ بات درست ہے کہ بہت سے بچے کچھ ذہنی امراض یا معذوری کے باعث بولنے کے عمل سے محروم رہ جاتے ہیں یا درست بول نہیں پاتے البتہ لوگ اس بات سے ناواقف ہیں کہ ایسے بچوں کی تربیت کے لیے بھی تھراپسٹ اور ادارے موجود ہیں جو ان کی معذوری کے حساب سے ان کی ” تربیت گفتار” کرتے ہیں جس سے ان میں بہتری لائی جا سکتی ہے لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب والدین بچوں کی عمر کے مطابق بولنے کے سنگ میل سے واقف ہوں اور اپنے بچے کے ہرعمل کی نگرانی کریں۔

البتہ ان میں سے ہر بچہ ایسا نہیں ہوتا جو مکمل ٹھیک نہ ہوسکے کیونکہ آج کل ایسے بچے بھی بولنے کے عمل میں پیچھے رہ جاتے ہیں جو کسی ذہنی معذوری کا شکار نہ ہوں اس لیے والدین کو یہ بات پتا ہونی چاہیے کہ ہمارا بچہ کب اور کس عمر میں کونسی آواز نکالے گا یا لفظ بولے گا۔

آج ہم آپ کو بچوں کی عمر کے مطابق ان کی مرحلہ وار بولنے کی صلاحیت کے سنگ میل کی فہرست بتاتے ہیں جس میں واضح کیا گیا ہے کہ بچہ کس عمرمیں کونسا لفظ سمجھ سکتا اور بول سکتاہے لیکن اس کے ساتھ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ وہ کونسی وجوہ ہوسکتی ہیں جن کے باعث بچہ بولنے میں دیر کررہا ہے۔

بچوں کے بولنے کے سنگ میل:

بولنے اور سمجھنے کی صلاحیت

عمر

پیدائش کے فورا بعد بچے کا رونا

پیدائش

مختلف انداز میں رونا اور ہلکی آوازیں نکالنا

دو سے تین ماہ

 اس عمر میں بچہ بے ترتیب انداز میں”غوں غوں” کی مختلف آوازیں نکالتا ہے۔

تین سے چار ماہ

اس دوران آپ کا بچہ متوازن انداز میں” غوں غوں” کی آوازیں نکالتا ہے۔

پانچ سے چھ ماہ

اس وقت بچہ غوں غوں سمیت مختلف آوازوں کی نقل کرتا ہے اور ان پر اپنے تاثرات بھی دیتا ہے، ناراضی،غصے یا خوشی کے۔

چھ سےگیارہ ماہ

بچہ 12 ماہ یعنی ایک برس کی عمر میں ایک سے دو لفظ بولنے، بنیادی ہدایات کو سجھنے کے قابل ہو جاتا ہے جب کہ وہ اپنے نام سمیت واقف ناموں کو پہچان لیتا ہے اور واقف آوازوں کی نقل بھی کرتا ہے۔

بارہ ماہ

اس عمر میں بچے کے پاس پانچ سے 20 لفظوں کا ذخیرہ ہونا چاہیے جن میں مختلف چیزوں اور لوگوں کے نام شامل ہیں۔

اٹھارہ ماہ

اس وقت آپ کا بچہ 50 سے 100 الفاظ کا ذخیرہ جمع کرچکا ہوتا ہے۔ اس عمر میں بچہ ہاتھ کے اشارے سے ” گڈ بائے” کہنے اور ” نہیں” کو سمجھنے کے قابل ہوجاتا ہے جب کہ دو الفاظ پرمشتمل جملے بولنا بھی سیکھ جاتا ہے۔ اپنی ضروریات کے حصول کے لیے ” دو” جیسے لفظوں کا استعمال، اس کے علاوہ واقف جانور کی آوازوں کی نقل بھی کرتا ہے۔

ایک سے دو سال

اس عرصے کےدوران بچہ اپنے کے بجائے لفظ ” میں ” کہنے کو ترجیح دیتا ہے جب کہ گرامر میں ”اسم اور فعل” کو ملانا بھی شروع کردیتا ہے۔

الفاظ کا ذخیرہ 450 تک پہنچ جاتا ہے جب کہ بچہ چھوٹے چھوٹے جملوں کا استعمال بھی شروع  کردیتا ہے۔ ” بڑے اور چھوٹے” میں فرق کرنے لگتا ہے جب کہ تین سے چار رنگوں کو آپس میں ملانا شروع  کردیتا ہے، کہانیاں پسند کرتا ہے۔

دو سے تین سال

اس عمر میں بچے میں بولنے کی صلاحیت اتنی مضبوط ہوچکی ہوتی ہے کہ وہ خود سے کہانی سنا سکتا ہے جب کہ جملوں کی ساخت چار سے پانچ لفظوں پرمشتمل ہوجاتی ہے اور الفاظ کا ذخیرہ ایک ہزار تک پہنچ جاتا ہے، گلیوں کے نام اور نظمیں بھی یاد کر لیتا ہے۔

تین سے چار سال

اس عمر میں لفظوں کا ذخیرہ 1500 تک پہنچ جاتا ہے جب کہ بچہ سوالیہ جملے اور ماضی کے جملے استعمال کرنے لگتا ہے اور اسے رنگوں اور ساخت کی پہچان ہوجاتی ہے۔

چار سے پانچ سال

اس عمر میں لفظوں کا ذخیرہ دو ہزارتک پہنچ جاتا ہے جب کہ بچےخیالی دنیا کی باتیں بھی سمجھنے لگتا ہے۔

پانچ سے چھ سال

اگر آپ کے بچے کی ”قوت گویائی” ان تمام سنگ میل کے مطابق پرورش نہیں پا رہی تو یہ تشویشناک بات ہے، اس کی کئی ”وجوہ”  ہوسکتی ہیں جو درجہ ذیل ہیں۔

آپ کا بچہ سماعت سے محروم ہوسکتا ہے یا اس کی قوت سماعت کم ہوسکتی ہے۔

آپ کا بچہ کسی ” لرننگ ڈس ابیلیٹی”  یعنی ”سیکھنے کی معذوری”  کا شکار ہوسکتا ہے۔

آپ کے بچے کو کسی قسم کی ذہنی یا جسمانی معذوری بھی ہوسکتی ہے۔

اس لیے اگر آپ کا بچہ قوت گویائی کے سنگ میل میں اپنی عمر سے پیچھے ہے تو فوری طور پر کسی ڈاکٹر اور اسپیچ تھراپسٹ سے رابطہ کریں۔

یاد رہے کہ قوت گویائی کے نقائص صرف ذہنی معذور بچوں میں ہی نہیں ہوتے بلکہ کسی بھی بچے میں ہوسکتے ہیں جس میں ہکلاہٹ، تلفظ کی غلط ادائیگی اور ذہن کا لفظوں کو درست نہ پڑھنا وغیرہ عام  ہیں۔

بچوں کے معاملے میں انسان کو بہت حساس ہونا چاہیے، ان کی ”قوت گویائی” کی ایک مخصوص عمر ہوتی ہے جو پیدائش سے  12 برس تک رہتی ہے اس دوران اگر کوئی نقص پیدا ہوجائے اور درست وقت پر اس کی نشان دہی بھی نہ ہو تو نتائج تشویشناک ہوسکتے ہیں اس لیے اپنے بچوں کے ہر عمل کا بہ غور جائزہ لیں اوران پر پوری توجہ دیں کیونکہ یہی آپ کا آنے والا  کل  ہیں۔


متعلقہ خبریں