پاکستان میں پانی بحران کی بھیانک صورتحال

بھارتی انڈس واٹر کمیشن نے دورہ پاکستان منسوخ کردیا پاکستان میں پانی بحران کی بھیانک صورتحال | urduhumnews.wpengine.com

اسلام آباد: پاکستان میں پانی کی کمی کا ذمہ دار مختلف عوامل کو ٹھہرایا جاتا ہے لیکن ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ سب سے بنیادی وجہ حکمرانوں کی کوتاہ بینی ہے جو مسئلہ پنپتا دیکھ کر بھی سدباب کے لیے کچھ نہ کر سکے۔

الیکٹرانک ، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر بھارتی آبی جارحیت کو ہی پاکستان کے لیے نقصان دہ ثابت کیا جاتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے لیکن اس سارے بیانیے میں پاکستانی قیادت اپنی ناکامیوں اور غلطیوں پر پردہ نہیں ڈال سکتی۔

1980 میں فی کس دستیاب پانی تین ہزار کیوبک سے کم ہوکر 1200 کیوبک میٹر رہ گیا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ صورتحال یہی رہی تو آئندہ 30 برسوں میں پانی کی دستیابی فی کس 500 کیوبک میٹر رہ جائے گی۔ بیرونی دنیا سے ادھار لی گئی عقل یا دوسروں کے اعدادوشمار کو حرف آخر سمجھنے والے ماہرین ایسے بھی ہیں جو آبادی کی زیادتی کو پانی کی کمی قرار دیتے ہیں لیکن اسے وجہ کہنے والے ملکی قیادت کے تذبذب کا شکار ہونے ، اداروں کی نااہلی اور کرپشن سمیت فرسودہ نظام زراعت سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔

1999 میں نیلم جہلم پروجیکٹ کی لاگت ایک بلین ڈالر تھی جسے پانچ سے چھ برس میں مکمل ہونا تھا حکومت اور واپڈا کی نااہلی سے منصوبہ چار بلین ڈالر میں 20 سال کے عرصے میں مکمل ہوا، یہ ابھی تک مکمل طور پر فعال نہیں ہوسکا۔

بھارتی منصوبہ سازوں کو اس تاخیر میں اپنے ڈیم بنانے کا موقع مل گیا، ڈیم بنانے سے بھی ذیادہ اہم واٹر مینجمنٹ سسٹم میں اصلاحات لانا ضروری ہیں جو کہیں ترجیح ہی نہیں۔ ماہرین واضح کرتے ہیں کہ پانی کو بہتر طور پر استعمال میں لانے اور محفوظ کرنے کے معاملات کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔

ماہرین کے مطابق بھارت کے مقابلے میں پاکستانی گنے اور چاول کی کاشت میں 50 فیصد زائد پانی استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان میں کم پانی کو استعمال میں لاکر مہنگی فصلیں اگائی جاسکتی ہیں۔ گنے کو ملک میں کاشت کرنے کے بجائے کیوبا سے سستی چینی درآمد کی جاسکتی ہے۔

یہی ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ نہری نظام کو بہتر بنانے میں سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے۔ کاشت کاری کے جدید آلات کو استعمال میں لاکرپانی کی بچت اور بہتر نقدآور فصلیں حاصل کی جاسکتی ہیں۔

زیرزمین پانی کا مسئلہ
پاکستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ زیرزمین پانی کا مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے، آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان نے پانی زخیرہ کرنے لیے ہنگامی بنیادوں پر ڈیمز نہ بنائے تو ملک کو خشک سالی کے مستقل بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

لاہور میں پینے کے صاف پانی کی سطح ہر سال دو میٹر سے زائد نیچے گرنے لگی ہے جس کےبعد ماہرین نے دس سال تک شہر میں پانی کے ذخائرختم ہونے کی وارننگ دے دی۔

کراچی میں پانی کا مسئلہ
حب ڈیم میں پانی کی سطح انتہائی کم ہو گئی، آئندہ چند دنوں میں کراچی کے شہریوں کو مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ واٹربورڈحکام کے مطابق حب ڈیم سے کراچی کو 20 ملین گیلن پانی فراہم کیا جارہا ہے اور 70 ملین گیلن پانی کی کمی کا سامنا ہے۔

حب ڈیم میں پانی کی سطح تین فٹ رہ گئی ہے، پانی کی سطح کم ہونے سے ضلع غربی اور وسطی کو پانی کی سپلائی متاثر ہوئی ہے۔

دوسری جانب کراچی میں پانی کے مصنوعی بحران نے شہریوں کو شدید گرمی میں ہائیڈرنٹ کے چکر لگانے اور ٹینکر مافیا کے پیچھے بھاگنے پر مجبور کیا ہواہے۔

شدید دھوپ میں پانی کے حصول کے لئے سوال کرنے والی 80 سالہ مختاراں مائی سرجانی ٹاؤن کے قریب واقع خدا کی بستی کی رہائشی ہے۔ بچے کام پر نکلے تو مختاراں مائی پانی کے حصول کے لئے سخی حسن ہائیڈرنٹ پہنچ گئی لیکن واٹر بورڈ کا عملہ ایک ہزار روپے میں ٹینکر دینے کو تیار نہیں۔

واٹر بورڈ نے سنگل ٹینکر کی قیمت 800 مقرر کی ہے لیکن واٹر ٹینکر مافیا شہریوں کو 1200 روپے میں سنگل ٹینکر بیچ رہا ہے، اسی لحاظ سے ڈبل ٹینکر کی سرکاری قیمت 1400 روپے ہے لیکن منہ مانگی قیمت 2000 وصول کی جا رہی ہے۔

پانی سے لبریز ٹینکرز کو سرکاری ہائیڈرنٹ سے نکلتا دیکھ کر شہری یہی سوال کرتے ہیں کہ واٹر بورڈ ہائیڈرنٹ پر موجود پانی ان کے گھروں تک سپلائی کیوں نہی کیا جاسکتا؟

کراچی کو یومیہ 1100 ایم جی ڈی پانی کی ضرورت ہے لیکن صرف 500 ایم جی ڈی پانی فراہم کیا جاتا ہے ، پہلے شہریوں کے حصے کا پانی چوری کر کے انہیں بیچا جاتا تھا اور اب قلت آب کا مصنوعی بحران پیدا کر کے ان کی جیبوں پر ڈکیتی ماری جا رہی ہے۔

اسلام آباد میں پانی بحران
وفاقی دارالحکومت ہونے کے باوجود اسلام آباد کے مکین بھی پانی کہ نہ ہونے یا کمی سے اتنے ہی متاثر ہیں جتنے ملک کے کسی اور علاقے کے مکین۔

21 لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل اسلام آباد کی یومیہ پانی کی ضرورت 120 ملین گیلن ہے جب کہ فراہم کیا جانے والا پانی اس کے نصف سے بھی کم 61 ملین گیلن ہے۔ انتظامی ادارے تسلیم کرتے ہیں کہ اس وقت 194 ٹیوب ویلز میں سے 160 اور 34 ٹینکروں میں سے 22 ٹینکرز پورے شہر کو پانی فراہم کر رہے ہیں۔

انتظامی سطح پر فراہم کیے گئے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ آبادی کے تناسب سے ایک ٹینکر ایک لاکھ اور ایک ٹیوب ویل 13 ہزار ایک سو 25 افراد کی پانی کی کمی پوری کرنے کی ناکام سعی کر رہا ہے۔

انتظامیہ کا طویل عرصہ سے دعوی ہے کہ تربیلہ ڈیم سے یومیہ 100 ملین گیلن پانی اسلام آباد کو فراہم کرنے کے منصوبہ پر کام کیا جائے گا لیکن تاحال ایسا ہونے کا کوئی امکان دور دور تک نظر نہیں آتا۔

بلوچستان میں پانی بحران
گرمی میں اضافے کے ساتھ ہی کوئٹہ شہر میں پانی کا بحران سنگین شکل اختیار کر چکا ہے ۔30 لاکھ کی آبادی والے اس شہر کو روزانہ کے بنیاد پر 50 ملین گیلن پانی کی ضرورت ہے – جبکہ محکمہ واسا کے پاس اس وقت  شہریوں کے لیے  28 سے 30 ملین گیلن پانی میسر ہے۔   لوگ  1000سے لیکر 1500 روپے تک ایک ٹینکر پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔

حکومت کی جانب سے  شہر کے مختلف علاقوں مین430 ٹیوب ویل نصب ہیں جس میں سے 52 خشک ہو چکے ہی۔ واسا کے منیجنگ ڈایریکٹر اسلم مگسی کا کہنا یے کہ انکے پاس وسائل کی سخت کمی ہے۔

حکومت کا دعوی ہے کہ کویٹہ شہر مہں پانی کے بحران کے خاتمے کے لیے  اقدامات کیے ہیں جس میں سے ایک  منگی ڈیم ہے، اس کی تعمیر سے کوئٹہ شہر میں پانی کا مسلہ  حل ہو جائے گا۔

بلوچستان کے کئی اضلاع کو خشک سالی اور قحط کے خطرے کے سامنا ہے۔ اس صوبے کی 80 فیصد آبادی کا زراعت پر انحصار ہے لیکن اس شعبے کی اہم خوراک پانی کی حفاظت کیسے کی جائے اس جانب کسی کی کوئی توجہ نہیں ہے۔

صوبے میں موجود 114 ڈیمز ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی ہیں، 2001 سے 2013 تک ٹیوب ویلز کی تعداد 29 ہزار سے بڑھ کر 42 ہزار ہو چکی ہے۔

خوراک کی فراہمی میں لورا لائی کا اہم حصہ ہے لیکن یہاں 95 فیصد زیرزمین پانی کے ذرائع خشک ہو گئے ہیں۔ بلوچستان کے 32 میں سے 30 اضلاع خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔

وزارت آنی وسائل کی شاہ خرچیاں
ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں پانی و بجلی کا بحران 211 ارب روپے کی غیر قانونی ادائیگیوں سے پیدا ہوا ہے۔ ہم نیوز کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق وزارت آبی وسائل نے غیر قانونی ادائیگیاں کیں جس سے قومی خزانے کو 211 ارب روپے کا نقصان پہنچا۔ 66 ارب غیرقانونی اخراجات کی مد میں ضائع کیے گئے۔

آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 27 ارب روپے بے قاعدگیوں اور قوانین کی خلاف ورزی کی بھینٹ چڑھ گئے، بیوروکریسی کی نااہلی کی وجہ سے خزانے کو 25 ارب روپے کا نقصان ہوا، ایک ارب روپے خود ساختہ حادثوں اور غفلت کی نذر ہوئے۔

آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مختلف منصوبوں میں 2 ارب روپے کی چوری اور فراڈ ہوا، دستاویزات میں کرپشن کے ذمہ دارمتعلقہ حکام کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔


متعلقہ خبریں