العزیزیہ ریفرنس، نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل سماعت کیلئے مقرر

فوٹو: فائل


اسلام آباد: العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل سماعت کے لیے مقرر کر دی گئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کی اپیل پر سماعت یکم ستمبر کو ہو گی۔ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی کیس کی سماعت کریں گے۔

گزشتہ سال اکتوبر میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس کیس میں ضمانت ملی تھی۔ عدالت نے نوازشریف کی ضمانت 20 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کی تھی۔

یاد رہے کہ نواز شریف نے العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جبکہ نیب نے اسی مقدمے میں نواز شریف کی سزا بڑھانے کی اپیل دائر کی تھی۔

العزیزیہ ریفرنس کیا ہے؟

احتساب عدالت کی جانب سے العزیزیہ ریفرنس پر 131 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا کہ نواز شریف ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے اصل مالک اور بینیفشری ہیں۔ وہ آمدن سے زائد اثاثوں کی منی ٹریل دینے میں ناکام رہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف ریفرنس میں کرپشن کے مرتکب قرار پاتے ہیں اور نواز شریف کو سات سال کے لیے قیدِ بامشقت سنائی جاتی ہے جبکہ انہیں ڈیڑھ ارب روپے اور 25 ملین ڈالر کا جرمانہ بھی ادا کرنا ہو گا۔ ہل میٹل کی آمدن سے بننے والے تمام اثاثے اور جائیداد وفاقی حکومت قرق کرے۔

پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کئے تھے۔

لندن فلیٹس ریفرنس میں  سابق وزیر اعظم نواز شریف، حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو ملزمان ٹھہرایا گیا تھا۔ العزیزیہ اسٹیل ملز جدہ اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے بیٹے نامزد ملزمان  تھے۔

حسن نواز اور حسین نواز کو عدالت میں پیش نہ ہونے کی وجہ سے مفرور قرار دیا جا چکا ہے۔ عدالت نے ان کے مقدمات علیحدہ کر دیے تھے۔

العزیزیہ میں استغاثہ کے 22 اور فلیگ شپ ریفرنس میں 16 گواہان نے بیانات قلمبند کروائے تھے۔ سابق وزیراعظم نے فلیگ شپ میں 140 اور العزیزیہ میں 152 سوالوں کے جواب عدالت میں جمع کرائے تھے۔

سابق وزیراعظم نے دونوں ریفرنسز نے اپنا دفاع پیش نہیں کیا۔ نوازشریف نے مؤقف اپنایا کہ کاروبار میرے بچوں کے ہیں جو بالغ اور خود مختار ہیں میرا ان کاروبار سے کوئی تعلق نہیں۔

انہوں  نے استدعا کی تھی کہ جے آئی ٹی کی طرف سے اکٹھے کیے گئے نام نہاد شواہد اور رپورٹ کومسترد کیا جائے۔ وکیل صفائی خواجہ حارث نے اپنے حتمی دلائل میں کہا تھا کہ حسن اور حسین نواز کا کوئی بیان یا دستاویز نواز شریف کیخلاف شواہد کے طور پر استعمال نہیں ہو سکتی۔


متعلقہ خبریں