اسلام آباد: ممبر پلاننگ سی ڈی اے ڈاکٹر شاہد محمود نے کہا ہے کہ وفاقی دارالحکومت کے سیکٹر آئی 12 میں بننے والے سرکاری منصوبے پر انجینئرنگ انویسٹی گیشن ہونی چاہیے۔ حکومت 20 ہزار خاندانوں کی زندگیوں سے کھیل رہی ہے۔
ہم نیوز کے پروگرام بریکنگ پوائنٹ ود مالک میں سیکٹر آئی 12 میں زیر تعمیر 22 اپارٹمنٹس کے زیر تعمیر 20 ہزار فلیٹس کے حکومتی منصوبے کی مزید حقیقیں سامنے لائی گئیں۔
ممبر پلاننگ سی ڈی اے ڈاکٹر شاہد محمود نے کہا کہ ہم نے 2018 نومبر میں منصوبے کو سیل کر دیا تھا اور اس کے بعد بھی ہم نوٹسز دیتے رہے لیکن کام نہیں روکا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں کوئی بھی بننے والی بلڈنگ سی ڈی اے کی اجازت کے بغیر نہیں بنتی۔ سی ڈی اے سے بلڈنگ پلان منظور نہیں کرایا گیا تھا جس کی وجہ سے ہم نے سیل کیا۔
سابق ایم ڈی نیسپاک طاہر شمشاد نے کہا کہ عام طور پر نالے پر کسی قسم کی تعمیرات نہیں کی جاتیں ورنہ بلڈنگز تو سمندر میں بھی بن جاتی ہیں۔ کسی بھی قسم کی پریشانی سے بچنے کے لیے نالوں پر تعمیرات نہیں کی جاتیں۔
طاہر شمشاد نے کہا کہ 110 فٹ کی بلڈنگز کے درمیان 45 سے 50 فٹ کا فاصلہ رکھا جاتا ہے لیکن انہوں نے دو پلازوں کے درمیان 30 فٹ کا فاصلہ رکھا ہے جو غیر قانونی ہے۔
انہوں نے کہا کہ انجینئرنگ انویسٹی گیشن ہونی چاہیے کہ کس طرح اتنی بڑی غلطی سرزد ہوئی۔
ڈائریکٹر نارتھ ماک سنس ندیم خان نے کہا کہ یہ ٹیکنیکل مسائل ہیں اور میڈیا کو اس پر بہت زیادہ معلوم نہیں ہوتا۔ یہ مسئلہ بنیادی انسانیت کا ہے۔ ستمبر کے پہلے ہفتے میں ان بلڈنگز کے نیچے نالوں میں پانی بہت زیادہ آ گیا تھا جس پر ایکشن بھی لیا گیا۔ جس پر پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی (پی ایچ اے) سمیت دیگر کی 11 گھنٹے کی میٹنگ ہوئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ میک سینس 1951 سے اس ملک میں کام کر رہی ہے ہم نے ان تعمیرات پر ہونے والی غلطی کی طرف نشاندہی بھی کی تھی لیکن پی ایچ اے ان تعمیرات کو 0.75 پر ہی تعمیر کر رہی تھی۔
پروگرام کے دوران پی ایچ اے کی غلطیوں پر کچھ آڈیو ریکارڈنگز بھی چلائی گئیں۔ جس میں حکومتی ایجنسی کی چیف انجینئر نے کہا کہ ہمیں کوئی پرواز نہیں کہ بلڈنگ گر جائیں۔
ندیم خان نے کہا کہ میں نے متعلقہ وفاقی وزیر سے بھی ملاقات کی تھی اور انہیں تعمیرات کی بنیادی غلطی سے متعلق بھی آگاہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ بیرنگ کیپیسیٹی میں غلطی کا کہا جا رہا ہے لیکن ہر کاغذ میں ہی یہ غلطی موجود ہے اور ہمیں کہیں بھی اس موضوع پر بات کرنے سے منع کیا گیا تھا۔
ڈائریکٹر آپریشن مائن ہارڈ عمران امین نے دعویٰ کیا کہ جو بھی غلطی ہے وہ صرف کاغذی ہے اور پی ایم سی کی رپورٹس آ رہی ہیں جس میں تمام چیزیں کلیئر ہو جائیں گی۔
یہ بھی پڑھیں اسلام آباد کے سیکٹر آئی 12میں بلند عمارتوں پر پابندی کے باوجود تعمیراتی کام دھڑلے سے جاری
انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ بالکل بھی سیل نہیں کیا گیا تھا صرف نوٹسز جاری کیے گئے تھے۔ ہم نے کسی این او سی کے بغیر تعمیرات نہیں کیں۔ آئی 12 کا ماسٹر پلان ابھی منظور ہوا ہے۔
ہم نیوز کی نشاندہی پر عمران امین نے کہا کہ ہم بعد میں آگ لگنے کی صورت میں باہر نکلنے کے راستے بنائیں گے وہ پہلے سے نقشہ میں نہیں رکھے جاتے لیکن بعد میں انہوں نے کہا کہ ہم نے اس کے نقشے 2016 میں جاری کیے تھے۔
واضح رہے کہ سی ڈی اے کی جانب سے سیل کیے گئے دفاتر کی سیلیں بھی توڑ دی گئی تھیں۔ منصوبے کے نام پر ریٹائرڈ سرکاری ملازمین سے 8 ارب روپے سے زائد کی رقم بٹوری جا چکی ہے۔ مگر اس نالے پر بنائی گئی ان خطرناک عمارتوں میں رہنے والوں کی زندگی کتنی محفوظ ہو گی اس کی گارنٹی دینے کو کوئی تیار نہیں۔