اسلام آباد: سینیٹر مشتاق احمد نے کہا ہے کہ وزیر اعظم بتائیں انہوں نے ریاست مدینہ کے نام پر لوگوں کو دھوکا دینا کہاں سے سیکھا۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی سربراہی میں سینیٹ کا اجلاس ہوا۔ اجلاس کے آغاز پر سینیٹر محسن عزیز کی والدہ کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی۔
سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سیاسی انتقام کا آغاز ایوب خان دور سے ہوا جب ایوب خان حکومت نے اپنی سیاسی مخالف فاطمہ جناح کو جیل میں ڈالا جبکہ ضیا الحق نے اسلام کا سہارا لے کر سیاسی مخالفین سے انتقام لیا اور اس کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری کو 9 سال تک جیل میں رکھا گیا۔
انہوں نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کو بھی سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا، آصف زرداری کیس کا ٹرائل دو سال تک اٹک قلعے میں کیا گیا جس کی وجہ آج تک سمجھ نہیں آئی اور اب پرویز مشرف دور میں بنائے گے نیب آرڈیننس کے تحت سیاسی انتقام جاری ہے۔
سینیٹر مشتاق احمد خان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کا رکن رہنے والے کو غیر ملکی قرار دے دیا گیا جبکہ میڈیا پر آج بدترین سینسر شپ ہے۔ پاکستانی میڈیا آزادی میں 142 ویں نمبر پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت ناکام ہوچکی ہے اسے مستعفیٰ ہو جانا چاہیے۔ وزیر اعظم ایک بات کہوں مارو گے تو نہیں ’’آپ نے ریاست مدینہ کے نام پر لوگوں کو دھوکا دینا کہاں سے سیکھا‘‘
سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ ملک کو ایک ساتھ متعدد مشکلات کا سامنا ہے اور حکومت کی ملک کو درپیش طوفانوں کے خلاف کوئی تیاری نہیں ہے، 30 اکتوبر کو بھارت نے کشمیر کا نقشہ بدل دیا لیکن بھارتی اقدامات پر حکومت نے پارلیمان کا اجلاس بلایا نہ کوئی عملی اقدام اٹھایا۔
انہوں نے کہا کہ عالمی مسائل درپیش ہونے پر پہلے ملکی حالات درست کیے جاتے ہیں اور ملک کو اس وقت سیاسی استحکام کی ضرورت ہے لیکن سیاسی استحکام سیاسی انتقام اور مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے سے نہیں آتا۔ حکومت تو سیاسی مخالفین کو دھمکیاں دے رہی ہے۔
سینیٹر فیصل جاوید نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حزب اختلاف کے رہنماؤں پر مقدمات موجودہ حکومت نے نہیں بنائے بلکہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی پر مقدمات ان کے اپنے دور میں ہی بنے تھے۔
انہوں نے کہا کہ آزادی مارچ کی وجہ سے مسئلہ کشمیر پس پردہ چلا گیا جسے عمران خان نے پہلی بار عالمی سطح پر بھرپور اجاگر کیا تھا۔ عمران خان کشمیریوں اور مسلم امہ کی آواز بن کر ابھرے ہیں۔
فیصل جاوید نے کہا کہ آزادی مارچ کی وجہ سے مسئلہ کشمیر پس پردہ چلا گیا جبکہ آزادی مارچ نکالنے والے صاحب نے دھاندلی کے خلاف اپنے ضلعی الیکشن کمیشن تک سے رجوع نہیں کیا۔ سینیٹر فیصل جاوید نے مولانا فضل الرحمان کو دھرنا ختم کرنے کا مشورہ دے دیا۔
وفاقی وزیر مراد سعید نے کہا کہ آزادی مارچ میں کارکنوں کو اکیلے چھوڑ دیا گیا ہے اور رہنما اپنے گھروں میں آرام کرتے ہیں۔ آزادی مارچ والے وزیر اعظم کو کہتے ہیں انتظامات کریں۔
انہوں نے کہا کہ اگر آصف علی زرداری کے اکاؤنٹس سے پیسے برآمد ہوتے ہیں تو اس میں تحریک انصاف کا کیا قصور۔ ماضی میں ایک دوسرے پر الزامات لگانے والے آج ایک ساتھ ہیں۔ پی ٹی آئی کرپشن کے خلاف ہے اور مظاہرین کرپشن کو بچانے نکلے ہیں۔
مراد سعید کی تقریر کے دوران سینیٹ میں ہنگامہ آرائی شروع ہو گئی اور حزب اختلاف کے اراکین نے احتجاج کیا۔
جس پر چیئرمین سینیٹ نے مراد سعید کو اپنی بات پوری کرنے کی ہدایت کی۔ اعظم سواتی نے کھڑے ہوکر بات کرنےکی کوشش کی تو چیئرمین سینیٹ نے انہیں بیٹھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اجلاس ملتوی کرنے پر مجبور نہ کریں۔ اعظم سواتی نے کہا کہ اگر ہمیں تقرر نہ کرنے دی گئی تو یہ بھی بات نہیں کریں گے۔