اسلام آباد: ماہر نفسیات طاہرہ ملک نے کہا ہے کہ اکثر والدین بچوں کے سامنے ایسی باتیں بول دیتے ہیں جو ان کے لیے ٹھیک نہیں ہوتی، بچوں کے سامنے بہت سوچ سمجھ کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم نیوز کے پروگرام “صبح سے آگے” میں میزبان شفا یوسفزئی اور اویس منگل والا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ والدین اکثر ایسے جملے بول دیتے ہیں جن کا بچوں کے دماغ پر برا اور دیرپا اثر ہوتا ہے۔ ایسی باتوں کی وجہ سے بچہ اکثر غلط راستے کی طرف چل پڑتا ہے۔
“تم مجھے بہت غصہ دلاتے ہو”
یہ سننے میں ایک بہت معمولی سا جملہ لگتا ہے لیکن بچوں کے لیے نہایت غلط ثابت ہو سکتا ہے۔ والدین کو چاہیئے کہ اپنی غلطیوں کی خود ذمہ داری لیں، ان کو اپنے بچے پر مت ڈالیں۔
ان کا کہنا تھا کہ والدین کو چاییئے کہ بچے کو آرام سے بیٹھ کر سمھجائیں کہ اس نے کیا غلطی کی اور اس غلطی کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔
’’یہ کام تم نے غلط کیا ہے‘‘
طاہرہ ملک نے کہا کہ اگر بچہ والدین کو کوئی بات بتائے تو اس پر فوراً ردعمل نہ دیں، اپنے اندر تھوڑا صبر پیدا کریں اور آرام سے بچے کی بات سنیں۔ اس کے بعد پرسکون طریقے سے بچے کو صحیح راستے کی طرف لانے کی کوشش کریں۔
ماہر نفسیات نے بتایا کہ بچے کی زندگی کے مختلف دور ہوتے ہیں، والدین کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر بچہ کوئی ایسی چیز کر رہا ہے جو غلط ہے تو ایسا ہمیشہ نہیں رہے گا لہذا کچھ معاملات میں تحمل مزاجی سے کام لینا بہت ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ والدین کو کبھی بچوں کے سامنے ایک دوسرے پر الزام تراشی نہیں کرنی چاہیئے، اس کے اثرات بہت برے ہوئے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اکثر اساتذہ بچوں کو ڈانٹ دیتے ہیں جس سے ان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے لہذا اس معاملے میں اساتذہ کو اہم کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
“ہم یہ چیز نہیں خرید سکتے”
طاہرہ ملک کا کہنا تھا کہ کبھی بچوں کے سامنے “ہم یہ چیز نہیں خرید سکتے“ جیسے جملے استعمال نہیں کرنے چاہیئں بلکہ بچے کو روپے پیسے کی دیکھ بھال کا گر سکھانا چاہیئے۔
انہوں نے کہا کہ بچوں کو یہ سمجھانا چاہیئے کہ اگر وہ فضول خرچی نہ کریں اور پیسے جمع کرنے کی عادت ڈالیں تو اپنی من پسند چیزیں ضرور خرید سکتے ہیں۔