کشمیر کی خصوصی حیثیت کیسے ختم ہوئی؟ اندرونی کہانی


اسلام آباد: بھارت میں برسراقتدار انتہا پسند ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کے نامزد وزیراعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر اور مظلوم کشمیریوں کو ملکی آئین و قانون کے تحت حاصل خصوصی ’نیم خود مختاری‘ کے خاتمے کا فیصلہ یکا یک کرلیا اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی؟

درج بالا سوالات گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران متعدد اذہان کا احاطہ کیے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے اندرون ملک و بیرون ملک مقیم افراد یہی جاننے کے خواہش مند ہیں کہ کیا سب کچھ اچانک ہو گیا؟ اور یا جو کچھ ہوا وہ باقاعدہ منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہے؟

ہم نیوز نے ان ہی سوالات کے جوابات مختلف عالمی اور بھارتی ذرائع ابلاغ میں شائع شدہ مضامین، تجزیات و تبصروں سے جاننے کی کوشش کی تو عقدہ کھلا کہ سب کچھ طے شدہ تھا البتہ چند واقعات نے عمل درآمد میں تیزی ضرور پیدا کی یعنی ’’ وقت کرتا ہے پرورش برسوں-حادثہ ایک دم نہیں ہوتا‘‘۔

’بھارت نے کشمیر میں ہر گھر کے باہر 10 فوجی کھڑے کردیے‘

مقبوضہ وادی کشمیر کی جداگانہ حیثیت کا خاتمہ بی جے پی کے ایجنڈے میں شروع سے شامل تھا اور وہ اس پر عمل درآمد کی حد درجہ خواہش مند بھی تھی لیکن گزشتہ دنوں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تسلسل کے ساتھ یہ بیانات سامنے آئے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل میں ثالثی کرنے کے لیے تیار ہیں تو بھارت کی حکمراں جماعت نے فیصلہ کیا کہ یہی وہ وقت ہے کہ جب وہ اپنی دیرینہ خواہش پر عمل درآمد کرسکتی ہے تاکہ عوامی سطح پر اسے جو سیاسی نقصان پہنچا ہے اس کا ازالہ ہو جائے اور امریکہ کو ثالثی‘ کا کردار ادا کرنے سے بھی باقاعدہ روکنا ممکن بنایا جا سکے۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران کہا تھا کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کا تصفیہ کرانے کے لیے ثالثی کا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ان سے اس ضمن میں کردار ادا کرنے کے لیے کہا تھا۔

امریکی صدر کے اس بیان پر پورے بھارت میں ’ہا ہا کار‘ مچ گئی تھی اور بھارتی لوک سبھا (پارلیمنٹ) میں بی جے پی اور نریندر مودی کو حزب اختلاف کی سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا حالانکہ بھارتی وزارت خارجہ نے اس ضمن میں باقاعدہ تردید جاری کی تھی لیکن کانگریس سمیت دیگر حزب اختلاف کی جماعتوں کی تسلی و تشفی نہیں ہوئی تھی اور ان کا مطالبہ تھا کہ نریندر مودی ازخود پارلیمنٹ میں آکر اس کی تردید کریں۔

بھارتی وزیرا عظم حزب اختلاف کا مطالبہ پورا کرنے سے اس لیے ہچکچا رہے تھے کہ ایک جانب انہیں ستمبر میں امریکہ کا دورہ کرنا ہے جب کہ دوسری جانب موجودہ امریکی صدر گزشتہ کچھ عرصے سے بھارت سے ناراض بھی ہیں حالانکہ ہندوستان میں ’ٹرمپ ٹاور‘ بھی پایہ تکمیل کو پہنچ رہا ہے۔

’ہندوستان نے کشمیر کے معاملے پر اقوام متحدہ کے قراردادوں کی خلاف ورزی کی‘

بھارت کے ممتاز انگریزی اخبار ’دی ہندو‘ کے مطابق بھارتی وزیرداخلہ امت شاہ نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے جاری ’اسٹیٹس کو‘ کو ملکی اور عالمی حالات کے تناظر میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ انہیں حکمراں جماعت کے ’تھنک ٹینک‘ نے یہی مشورہ دیا تھا۔

اخبار کے مطابق حکومت نے واضح کردیا تھا کہ ٹرمپ کے ساتھ مودی کی ہونے والی بات چیت میں ایسی کوئی بات نہیں ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود پارٹی کے اندرونی حلقوں کا اصرار تھا کہ ایسا ’اقدام‘ اٹھایا جائے جس سے یہ ثابت ہو کہ جو کچھ امریکی صدر کی جانب سے کہا گیا ہے وہ یکسر غلط ہے۔

دلچسپ امر ہے کہ بھارتی سرکار اس سے قبل مقبوضہ کشمیر میں قائم محبوبہ مفتی کی حکومت کی حمایت سے دستبرداری اختیار کرکے وہاں گورنر راج کا نفاذ کرچکی تھی۔ مودی سرکار نے مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت کے باوجود وہاں اینٹی کرپشن بیورو قائم کیا تھا اور جموں و کشمیر بینک پر چھاپہ مار کر چھان بین بھی کی تھی جس پر مبصرین کی جانب سے متعدد اہم سوالات پوچھے گئے تھے کیونکہ یہ اقدام آئین کے تحت حاصل نیم خود مختاری کے صریحاً خلاف تھا۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق مودی سرکار کے یہ اقدامات واضح طور پر نشاندہی کررہے تھے کہ وہ موجود ’اسٹیٹس کو‘ کو چیلنج کررہی ہے۔ اسی طرح پنچایت انتخابات کا انعقاد بھی کم اہمیت کا حامل نہیں تھا۔

بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ کو اس ضمن میں اہم حکومتی شخصیات نے ’راستہ‘ دکھایا کہ وہ کس طرح ایوان بالا (راجیہ سبھا) میں اکثریت حاصل کرسکتے ہیں تاکہ پیش کردہ بل کو منظور کرالیں وگرنہ حکمراں جماعت کے لیے ایوان بالاسے بل منظور کرانا ممکنات میں سے نہیں تھا۔

بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور وزیراعظم نریندر مودی سمیت امیت شاہ کی اس سلسلے میں مختلف شخصیات نے ’غیر معمولی‘ مدد کی۔

بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے بجٹ اجلاس شروع ہونے سے قبل ہی آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت اور اس کے معاون بھیا جی جوشی کو دفعہ 370 ہٹانے اور مقبوضہ وادی کشمیر کو دو الگ الگ یونینوں میں بانٹنے کے منصوبے سے معطلع کردیا تھا۔

کشمیر پر ثالثی: ’ٹرمپ نے عمران خان کےساتھ مذاق کیا تھا‘

وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے مقبوضہ وادی کشمیر کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی ابتدا جون کے تیسرے ہفتے میں اس وقت شروع ہوئی تھی جب انہوں نے چھتیس گڑھ کیڈر کے آئی اے ایس افسر بی وی آر سبرامنیم کو جموں و کشمیر کا نیا چیف سکریٹری مقرر کیا تھا۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کیے مطابق سبرامنیم نے وزیراعظم کے دفترمیں بحیثیت جوائنٹ سیکریٹری پہلے بھی نریندر مودی کے ساتھ کام کیا تھا۔

مودی نے مشن کشمیر کا مکمل کام مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے سپرد کیا تھا جنہوں نے وزیر قانون روی شنکر پرساد کے ساتھ مل کر اس ضمن میں پیش آنے والی قانونی پیچیدگیوں کا جائزہ لیا تھا۔

امیت شاہ کے قریبی ذرائع نے بھارت کے ایک ممتاز جریدے کو بتایا کہ وزیراعظم نریندر مودی کی ہدایت پر وزیرداخلہ کی مشیر قومی سلامتی امور اجیت ڈووال سے بھی کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ اجیت ڈووال مودی کی پہلی کابینہ میں وزیرمملکت کے مساوی تھے جب کہ دوسری کابینہ میں ان کا درجہ وفاقی وزیر کے مساوی کردیا گیا ہے۔

اجیت ڈووال نے امیت شاہ کو مشورے دینے سے قبل مقبوضہ کشمیر کا ازخود بھی دورہ کیا جس میں ان کا تین دن تک وہاں قیام بھی شامل تھا۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق مشیر قومی سلامتی امور کے مشورے پر 26 جولائی کو فیصلہ کیا گیا کہ امرناتھ یاترا کو روک دیا جائے۔ اجیت ڈووال کی ہدایت پر مقبوضہ وادی سے تمام سیاحوں کو نکالنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے بعد سیکیورٹی کی 100 اضافی کمپنیوں کی تعیناتی عمل میں لائی گئی۔

مقبوضہ کشمیر: آج بھارتی پارلیمان کے ایوان بالا ’راجیہ سبھا‘ میں کیا ہوا؟

امیت شاہ نے مقبوضہ وادی کے سیاسی رہنماؤں کی گرفتاری، مواصلاتی رابطوں کی بندش، کرفیو کے نفاذ سمیت دیگر تمام اقدامات اٹھانے سے قبل نیو دہلی میں رکن راجیہ سبھا انل بلونی اور بھوپیندر یادوکو یہ ذمہ داری تفویض کی کہ وہ ایوان بالا میں بی جے پی کی حمایت حاصل کریں کیونکہ وہاں بی جے پی اکثریت میں نہیں ہے۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق امیت شاہ کے نامزد افراد نے ٹی ڈی پی سے تعلق رکھنے والےاراکین راجیہ سبھا کو توڑا اور سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ نیرج شیکھر، سریندر ناگر، سنجے سیٹھ اور کانگریسی رکن پارلیمنٹ سجے سنگھ کا راجیہ سبھا سے استعفیٰ دلایا۔ اس کے بعد بی جے پی کو ایوان بالا میں قابل قدر حمایت ملی جس میں غیرمعمولی اضافہ اس وقت ہوا جب بی جے پی کو بہوجن سماج پارٹی کے رہنما ستیش مشرا کی حمایت مل گئی۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق امیت شاہ نے اپنے منصوبے کے حوالے سے چند سرکردہ صحافیوں کو اعتماد میں لیا تھا لیکن ساتھ ہی ان سے خاموش رہنے اور حکومتی مؤقف کی حمایت کرنے کا عہد بھی لیا تھا۔

مودی حکومت کے ذمہ دار ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ہفتہ کے آخری دن مودی اور امیت شاہ نے کابینہ کو اعتماد میں لیا، وزرا کو منصوبے سے آگاہ کیا اور وزارت برائے قانون و انصاف کو ذمہ داری سونپی کہ وہ صدر سے نوٹی فکیشن جاری کروائے۔

بھارت میں پیدا شدہ صورتحال پر سب سے دلچسپ اور معنی خیز تبصرہ مؤقر اخباری گروپ ’نیشنل ہیرالڈ‘ نے یہ کہہ کر کیا ہے کہ ’’امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ کشمیر کے تعلق سے ان کو اعتماد میں رکھا گیا ہے کیونکہ یہ فیصلہ ایسا ہے جس میں دوست عالمی طاقتوں کو اعتماد میں رکھا جاتا ہے‘‘۔


متعلقہ خبریں