افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان امن سمجھوتہ ہو پائے گا ؟

افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان امن سمجھوتہ ہو پائے گا ؟

اسلام آباد: اقوام متحدہ نے امریکہ طالبان مذاکرات میں شرکت کرنے والے ملا عبدالغنی برادر اور ڈپٹی لیڈر شیر محمد عباس اسٹانکزئی سمیت گیارہ طالبان رہنماؤں پر عائد سفری پابندیاں ختم کردی ہیں۔ اسی سلسلے میں طالبان کے منجمد اکاؤنٹس بھی محدود پیمانے پر بحال کیے گئے ہیں۔

عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سلامتی کونسل کے اقدامات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے رہنماﺅں کو اقوام متحدہ کی جانب سے دئیے گئے اس استثنیٰ کا علم ہے۔

غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق سلامتی کونسل نے اپنے ایک بیان میں واضح کیا ہے کہ دی جانے والی اجازت صرف امن اور مصالحتی مذاکرات میں شرکت کے لیے مختص ہے۔ طالبان رہنماؤں کو ملنے والی اجازت کا اطلاق یکم اپریل سے 31 دسمبر2019 تک کے درمیانی عرصے کے دوران ہوگا۔

افغان ذرائع ابلاغ کا گزشتہ ماہ دعویٰ سامنے آیا تھا کہ کیا تھا کہ مذاکرات مثبت سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں لیکن کچھ امور میں تاحال رکاوٹ کا سامنا ہے۔

طے شدہ شیڈول کے مطابق امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان آئندہ ہفتے دوحہ، قطرمیں مذاکرات ہونا ہیں جس پر دونوں فریقین نے رضامندی بھی ظاہر کی تھی۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ نے اپنی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ افغانستان میں طالبان مزاحمت کاروں نے جس طرح مذاکرات کے نئے دور سے قبل نئے محاذ کھول دیے ہیں اور جس طرح انہوں نے شمالی شہر کندوز میں سیکیورٹی فورسز پر نیا حملہ کرکے 70 سے زائد افراد کو ہلاک و زخمی کیا ہے اس کے بعد فوری طور پر کوئی امن سمجھوتہ ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان نے گذشتہ چند ہفتے سے سیکیورٹی فورسز کے خلاف اپنے موسم بہار کے حملے شروع کررکھے ہیں۔

امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے بھی طالبان کو ان حملوں پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کی تحریک امن عمل اور بحران کے پُرامن حل کے لیے پُرعزم ہے۔

ترجمان کے مطابق طالبان کی کارروائیوں کی وجہ افغان اور بین الاقوامی فورسز ہیں جن پر طالبان خاموش نہیں رہ سکتے ہیں۔

عالمی خبررساں ادارے کے مطابق کابل میں سیکیورٹی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ طالبان نے ہفتہ کے دن 15 صوبوں میں بیک وقت حملے کیے ہیں لیکن یہ محدود نوعیت کیے تھے۔

سیکیورٹی عہدیدار کے مطابق کیے جانے والے حملوں کو پسپا کردیا گیا ہے کیونکہ افغان سیکیورٹی فورسز ملک بھر میں ہائی الرٹ اور حملہ آوروں کا سامنا کرنے کے لیے تیارتھیں۔

افغان سیکیورٹی عہدیدار نے دعویٰ کیا کہ طالبان نے حملے دراصل اپنی موجودگی ظاہر کرنےکے لیے کیے تھے۔

کندوز اہم شہر سمجھا جاتا ہے۔ طالبان نے 2015ء میں بھی مختصر وقت کے لیے اس شہر پر قبضہ کر لیا تھا ۔

خبررساں ایجنسی کے مطابق طالبان نے ہفتہ کی صبح مختلف اطراف سے شہر پر حملہ کیا تھا۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق صوبائی گورنر کے ترجمان انعام الدین رحیمی کا کہنا ہے کہ ہونے والی لڑائی میں درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہوگئے ہیں۔

خبررساں ادارے کے مطابق محکمہ صحت کے ایک عہدے دار نے بتایا ہے کہ شہر کے مرکزی اسپتال میں 70 سے زائد نعشوں اور زخمیوں کو منتقل کیا گیا ہے۔

عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق طالبان نے شمالی صوبوں بغلان ، تخار ، بدخشاں ، فاریاب ، سرِ پُل اور بلخ میں بھی حملے کیے ہیں لیکن ان صوبوں میں افغان سیکیورٹی فورسز کی زیادہ ہلاکتوں کی اطلاع نہیں ملی ہے۔

خبررساں ادارے کے مطابق مغربی صوبہ غور میں طالبان کے ایک حملے میں افغان سیکیورٹی فورسز کے سات اہلکار ہلاک ہوگئے ہیں۔اس صوبے میں طالبان اور افغان سیکیورٹی فورسز کے درمیان تقریباً ایک گھنٹے تک جھڑپ جاری رہی تھی۔

افغانستان کے جنوبی صوبہ ہلمند میں کےتین اضلا ع نادِ علی ، گریشک اور سنگین میں بھی طالبان نے حملے کیے ہیں۔

صوبائی گورنر کے ترجمان عمر ژواک نے کہا ہے کہ افغان فورسز نے ان حملوں کو پسپا کر دیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان جھڑپوں میں چار فوجی اور پندرہ طالبان جنگجو مارے گئے ہیں۔

صوبائی گورنر کے ترجمان کے مطابق موسم کی شدت میں اضافے کے ساتھ ساتھ لڑائی میں بھی شدت آئے گی۔


متعلقہ خبریں