شمالی وزیرستان کی رونقیں پھر سے بحال!



اسلام آباد: سینئر صحافی عامر ضیاء کا کہنا ہے کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے تن تنہا نہ صرف دہشتگردی کی بڑھتی لہر کا سامنا کیا بلکہ اسکا منہ بھی موڑ دیا۔

شمالی وزیرستان کے دورے کے بعد وہاں ہونے والی پیش رفت کا آنکھوں دیکھا حال بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں 900 سے زیادہ ترقیاتی منصوبے یا تو مکمل ہو چکے ہیں یا تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں۔ ان میں 259  تعلیمی ادارے بشمول 8  کیڈٹ کالج، 22 صحت کے مراکز، 70 نئے تجارتی مراکز جن میں 3000 دکانیں شامل ہیں، ایک اگری پارک، 15 بڑے گودام، پائین نٹ کا پلانٹ، کولڈ اسٹورج ہاوسز اور کھیلوں کے میدان شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کہ دہشت گردی کے خلاف جاری سترہ سالہ جنگ میں 20,922 شہری اور 4551 فوجی افسر و سپاہی شہید ہوئے جبکہ 32,060 شہری اور 16,256 فوجی  زخمی ہوئے۔

دہشت گردوں کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے عامر ضیاء نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان سے منسلک 3350 سے 4200 کے درمیان عسکریت پسند افغانستان منتقل ہوگئے ہیں جہاں انہیں دشمن ممالک کی انٹیلجنس ایجنسیوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ ان کی آزادانہ نقل و حرکت روکنے کے لیے سرحد پر باڑ لگائی جا رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاک فوج کی 11ویں کور کے زیرانتظام  سرحد پر 1229 کلومیٹرز میں سے 900 کلومیٹر پر خاردار تار لگانے کا کام مکمل ہو چکا ہے اور جن مقامات سے دہشتگرد پاکستان داخل ہوتے تھے وہ راستے بڑی حد تک بند ہو چکے ہیں۔

عامر ضیاء نے بتایا کہ  پاک فوج کے ذرائع کے مطابق 44 فیصد علاقہ بارودی سرنگوں سے پاک ہو چکا ہے جبکہ باقی علاقے پر کام جاری ہے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈی جی میجر جنرل آصف غفور نے بتایا کہ جن مقامی لوگوں کی دکانیں تباہ ہو گئی تھیں ان کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے اور یہ دکانیں انہیں جلد واپس مل جائیں گی۔

انہوں نے بتایا کہ اس علاقے میں سوائے دہشت گردی کے اور کچھ نہیں تھا لیکن آج نارمل زندگی واپس آ گئی ہے۔ 96 فیصد قبائلی یہاں واپس آ چکے ہیں۔

میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد اب یہاں کے سویلین اداروں کی بحالی ضروری ہے۔ اس وقت پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی پناہ گاہ باقی نہیں ہے۔

پروگرام ایجنڈا پاکستان کے مہمان لیفٹیننٹ جنرل (ر) آصف یاسین نے بتایا کہ پاک فوج کو مشرقی سرحدوں کے لیے تربیت دی گئی تھی اور یہ ایک روایتی فوج تھی، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسے شروع میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

انہوں نے کہا کہ فوج کو ایک غیرروایتی فوج میں تبدیل کرنے میں سات آٹھ سال لگ گئے، یہی وجہ ہے کہ سب سے بڑے فوجی آپریشن 2009 اور 2010 میں ہوئے۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) آصف یاسین نے کہا کہ روس کے خلاف جنگ میں مختلف مسلمان ممالک سے لوگ پاکستان آئے، ان کی زیادہ تعداد افغانستان پر امریکہ حملے کے بعد شمالی وزیرستان میں آ گئی، اس لیے فوج میں اس بات پر اتفاق رائے تھا کہ یہاں سب سے آخر میں آپریشن کیا جائے۔

ہائیبرڈ وار کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ ایک میٹھا زہر ہے، اس کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہوتا، اس میں قوم کے دل و دماغ پر یلغار کی جاتی ہے۔

امریکہ طالبان مذاکرات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان کی فتح ہے کیونکہ ہم پہلے دن سے مذاکرات کا کہہ رہے تھے۔ تاہم ابھی بھی یہ سوال باقی ہے کہ اس معاہدے کی ضمانت کون دے گا۔

سینئر صحافی ایاز گل نے عامر ضیاء سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس علاقے کی تمام تجارت کا انحصار افغانستان کے ساتھ تجارت پر تھا، سرحد پار آمد و رفت کم ہونے سے تجارت بھی کم ہو گئی ہے۔

پروگرام میں شریک سینئر صحافی طاہر خان کا کہنا تھا کہ افغان سرحد پر باڑ لگانے سے بہت فرق پڑا ہے۔ یہاں اسمگلنگ بھی کم ہوئی ہے۔


متعلقہ خبریں