شرح سود میں اضافے سے معیشت کو نقصان ہوا، فیصل بنگالی


اسلام آباد: ماہر معاشیات فیصل بنگالی نے کہا کہ اس حکومت کو شروع میں کافی مسائل کا سامنا تھا اور سب سے پہلے انہوں نے بیرونی ممالک کے ساتھ معاہدے کیے جس سے ریلیف تو ملا۔

ہم نیوز کے پروگرام ایجنڈا پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ  شرح سود میں اضافے کے باعث بہت نقصان ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا پی آئی بی کے آپشن سے بچا جاسکتا تھا۔ اگر یو ایس بینک کو دیکھیں تو اس نے اپنی شرح سود کو کم کیا ہے اور تقریبا ڈھائی فیصد شرح سود میں اضافہ کیا۔ ہم نے شارٹ ٹرم شرح سود سوا چار فیصد جبکہ طویل المعیاد شرح سود میں پانچ فیصد کے قریب اضافی کیا جس سے سرمایہ کاروں کے امیدیں ٹوٹ گئیں۔

انہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے ہم نے سرمایہ کاروں کے جذبات اور امیدوں کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ریٹ بہت زیادہ بڑھانے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ بہت بڑا رسک ہے کیونکہ ہمارا روپیہ تبدیل ہونے والا نہیں ہے۔

عامر ضیا کا کہنا تھا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے پی آئی بی کے فیصلے کے  پر بہت تنقید کی گئی اور کہا گیا کہ شرح سود کو طویل المدت کے لیے بڑھا دیا گیا اور اس سے ملک پر قرضوں کا بوجھ بھی بڑھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بات بھی درست ہے کہ حکومت سے کچھ کاموں میں دیر ہورہی ہے اور سرمایہ کاروں کو تحفظات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ

اس وقت معیشت کی حالت معمول پر ہے، فیصل بنگالی

فیصل بنگالی نے کہا کہ اس ریٹ کو معمول پر لانے کے لیے وقت لگ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت معیشت کی حالت معمول پر ہی ہے کیونکہ ایک وقت پر یہی حالت امریکہ کی بھی تھی لیکن پھر انہوں نے ترقی کی اور آج ان کی معیشت ہمارے سامنے ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ سالوں میں ہماری معشیت بھی بہت آگے ہوگی۔

ماہر معاشیات کا توانائی بحران سے متعلق کہنا تھا کہ اس وقت گردشی قرضہ بہت زیادہ ہے اور یہ خسارہ آج کا نہیں سالوں پرانا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کا فوکس معاشرتی مسائل کی جانب ہے اور یہ بالکل درست ہے لیکن اس حکومت نے اس راستے تک پہنچنے کے لیے سمت کا تعین نہیں کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سست معاشی نمو ہوگی تو معاشرتی ایجنڈا پورا کرنا بہت مشکل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شرح سود میں اضافے سے لوگوں کو دھچکا ضرور لگا ہے لیکن یہ ریٹس زیادہ عرصے نہیں رہیں گے۔ انہوں نے کہاکہ 2019  سرمایہ کاروں ۔ کے لیے گزشتہ دو برسوں سے بہت بہتر ثابت ہوگا۔

حکومت کی پالیسوں سے طویل المدت اثرات مرتب ہوں گے، آصف قریشی

پروگرام میں موجود ماہر معاشیات آصف قریشی نے کہا کہ اس وقت ایک بے یقینی کی کیفیت ضرور ہے لیکن مستقبل سے اچھی توقعات رکھی جاسکتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں حکومت نے بہت زیادہ پیسہ لگایا اور شرح نمو میں اضافہ کیا لیکن وہ طویل المدت نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ لیکن اس حکومت کی پالیسوں سے طویل المدت اثرات مرتب ہوں گے جس کے لیے ہمیں کم زا کم ایک سے دو سال انتظار کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت مارکیٹ کے ساتھ مصروف رہنا اور سرمایہ کاروں کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت نجی شعبے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور ان کا اعتماد بحال کرنا لازمی ہے۔ ان کہا کہنا تھا کہ سبسڈی ایک مفروضہ ہوتی ہے اور کسی نہ کسی صورت میں عوام ہی پیسہ دے رہی ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نہ تو پہلی حکومت نے کوئی منصوبہ بندی کی اور اس حکومت نے بھی کسی فرنس آئل سمیت کسی بحران سے نمٹنے کے لیے کوئی تیاری نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب درست وقت میں نوکریاں نہیں ہوں گی تو معاشراتی مسائل یا غربت پر قابو پانا مشکل ہوگا۔

آصف قریشی نے کہا کہ ہمارے ادارے بہت کمزور ہوچکے ہیں۔ ہم 2019  2018 سے زیادہ بہتر  گے لیکن عوام میں آگاہی کی فراہمی کی ضرورت ہے۔


متعلقہ خبریں