کراچی میں سی این جی بندش، شہری اذیت میں مبتلا

۔—فائل فوٹو۔


کراچی: سوئی سدرن گیس کی مہربانی سے سی این جی اسٹیشنز پر غیر معینہ مدت کے لیے تالے پڑے تو شہرقائد میں ’زندگی‘ جیسے منجمد سی ہوگئی۔ روشنیوں کے شہر کے باسی ایک جانب شدید ذہنی اذیت و کوفت سے دوچار ہوگئے ہیں تو دوسری جانب ان کی جیب پر بھی بھاری بوجھ پڑ گیا ہے۔

ہم نیوز کے مطابق کراچی میں سی این جی اسٹیشنز کی غیر معینہ مدت کے لیے بندش کے سبب سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ نہایت کم ہے اورڈرائیور حضرات کئی گنا زائد اور منہ مانگے کرائے وصول کررہے ہیں۔

شدید مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے ستائے ہوئے لوگ جب بدھ کی صبح اپنے دفاترجانے اور دیگر ضروری کاموں کی انجام دہی کے لیے نکلے تو انہیں اس وقت سخت اذیت محسوس ہوئی جب دستیاب پبلک ٹراپسپورٹ کے ڈرائیوروں نے کئی گنا زائد کرایوں کی ادائیگی کا تقاضہ کیا۔

شہر کے مختلف بس اسٹاپوں پر ملازمتوں پہ جانے کی خواہش مند لڑکیوں اور خواتین نے ہم نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جتنے کرایوں کا تقاضہ رکشہ ڈرائیور حضرات کررہے ہیں ان کی اگر ادائیگی کردیں تو ہماری پورے ماہ کی تنخواہ ایک ہفتے ہی میں ختم ہوجائے گی۔

کراچی کی سڑکوں پر صبح سے یہ مناظر جا بجا نظرآرہے ہیں کہ بزرگ مرد و خواتین، بچے اور لڑکیاں پیدل چلتے دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ ان کی جیب میں اتنی سکت نہیں ہے کہ سینکڑوں روپوں میں مانگے جانے والے کرایوں کی ادائیگی کرسکیں۔

ہم نیوز کے مطابق سب سے زیادہ بری حالت میں وہ ملازمین دکھائی دے رہے ہیں جو یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں کیونکہ انہیں ایک جانب ’دیہاڑی‘ نہ ملنے کا صدمہ ہے تو دوسری جانب نوکری جانے کا بھی خطرہ منڈلا تا نظر آرہا ہے۔

رکشہ ڈرائیور حضرات نے اس ضمن میں ہم نیوز کے استفسار پر کہا کہ سی این جی اسٹیشنز کی بندش کے بعد وہ پیٹرول پر گاڑی چلارہے ہیں اس لیے ان کی مجبوری ہے کہ وہ زائد کرایہ وصول کریں۔

ان کا کہنا ہے کہ پیٹرول میں ان کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ پرانے کرایوں پر سواریوں کو منزل مقصود پر پہنچا سکیں۔

افسوسناک صورتحال شہر کے اسپتالوں کے اطراف بھی دکھائی دی جہاں مریض اپنا دکھ درد بھول کر زائد کرایوں کی ادائیگی کا سن کر ازحد پریشان دکھائی دیے۔

ہم نیوز کو شہر قائد کے سروے کے دوران کسی بھی جگہ وہ حکومتی ادارہ دکھائی نہیں دیا جس کے اہلکار اسی بات کی تنخواہ وصول کرتے ہیں کہ پبلک ٹرانسپورٹ والے مسافروں سے زائد کرایوں کی وصولی نہ کرسکیں۔

رکشہ اور ٹیکسیوں کو فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کرنے والوں نے مدت سے کراچی کی پبلک ٹرانسپورٹ میں یہ دیکھنا ہی چھوڑ دیا ہے کہ ان میں میٹر لگے ہوئے ہیں یا نہیں؟ اور اگر لگے ہیں تو کیا وہ درست کام بھی کرتے ہیں؟

کراچی میں صبح سے ’مجبوری‘ میں شہریوں نے پیدل سفر کا جو آغاز کیا تھا وہ دن ڈھلے بھی جگہ جگہ شاہراہوں پہ دکھائی دیتا رہا۔ تھکے ماندے لوگ سرد موسم کے باوجود پسینے میں شرابور گھروں کو لوٹتے ملے۔

ہم نیوز کے مطابق سی این جی ایسوسی ایشن کے تحت سوئی گیس ہیڈ آفس کے باہر اس سلسلے میں احتجاج کیاگیا۔

اطلاعات کے مطابق سوئی سدرن گیس کا مؤقف ہے کہ سسٹم میں پریشربہتر ہونے پر سی این جی اسٹیشنز کو ہنگامی بنیادوں پر سپلائی بحال کردی جائے گی۔


متعلقہ خبریں