منرل واٹر کیس: پانی پر اسٹیک ہولڈرز کا اجلاس طلب

منرل واٹر کیس: صرف دو کمپنیوں کو پانی فروخت کرنےکی اجازت | urduhumnews.wpengine.com

فائل فوٹو


اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے منرل واٹر کمپنیوں کی جانب سے زیرزمین پانی کے مفت استعمال کے کیس میں اسٹیک ہولڈر کا اجلاس شام پانچ بجے طلب کر لیا ہے۔

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں منرل واٹر کمپنیوں کی جانب سے مفت زیر زمین پانی کے استعمال سے متعلق معاملے کی سماعت کی۔

منرل واٹر بوتلوں کے استعمال پر عدالتی واٹر کمیشن کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق پروفیسر ڈاکٹر محمد احسن صدیقی اور فرزانہ الطاف شاہ ڈائریکٹر جنرل پاکستان ماحولیاتی تحفظ ایجنسی پر مشتمل کمیشن نے چاروں صوبوں میں 44 پلانٹس کا دورہ کیا۔

عدالتی کمیشن کی رپورٹ 95 صفحات پر مشتمل ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ حیدر آباد اور سکھر میں مشروب بنانے والی کمپنی (پیپسی) دریائے سندھ کا پانی مشروبات میں استعمال کرتی ہیں، کمپنیاں ہمارے زیر زمین پانی کو برباد کر رہی ہیں۔

عدالت کو بتایا گیا کہ تمام کمپنیز پانی میں مخصوص کیمیکل کا استعمال کر رہی ہیں، پانی کی بوتلوں پر منرلز کی بتائی گئی تعداد معیار کے مطابق نہیں ہوتی۔

پیپسی سکھر دریائے سندہ کا پانی اپنی مصنوعات میں استعمال کرتا ہے، پیپسی حیدرآباد کینال واٹر مصنوعات میں استعمال کرتا ہے۔ نیسلے کا بن قاسم میں پانی کا پلانٹ مقررہ ہدف سے زائد پانی ڈسچارج کرتا ہے۔

کمشن نے سفارش کی ہے کہ کمپنیز کے پا س ماہر کیمسٹ اور ماہر موحولیات نہیں ان کو اس بارے میں پابند کیا جائے۔ کمپنیوں سے 3 روپیے فی لیٹر پانی کی قیمت لی جائے۔

کمپنیوں کے پانی میں کیمیکل کے استعمال کو کم کیا جائے، تمام کمپنیوں کے پلانٹس پر فلور میٹرز لگائے جائیں، تمام پلانٹس کو متعلقہ حکومت سے ماحولیاتی اپروول لینا چاہیئے، تمام کمپنیز کو ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ نسب کرنے چاہیئں۔

کمیشن نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی ہے کہ کمپنیز کو ماہر کیمسٹ اور ماہر ماحولیات ہائر کرنے چاہیئں، کمپنیوں کو پلاسٹک کی تھیلیوں کا استعمال کم سے کرنے دیا جائے، نیسلے بن قاسم پلانٹ سالٹ رکوری پلانٹ اور ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ نصب کرایا جائے۔

عدالتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ سات ارب لیڑ پانی منرل واٹر کمپنیاں ماہانہ نکالتی ہیں، کوئی صنعت جو پیسہ دے بھی رہی ہے وہ خزانے میں نہیں جاتا، آلودہ پانی بغیر ٹریٹمنٹ زیرزمین بہا دیا جاتا ہے۔

سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ کراچی میں زیر زمین پانی کی سطح 1300 فٹ تک پہنچ چکی ہے، پنجاب میں نہریں خشک ہو چکی ہیں اور سیوریج کے پانی سے سبزیاں اگائی جا رہی ہیں جب کہ سندھ میں صنعتیں نہری اور دریائے سندھ کا پانی مفت استعمال کر رہی ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کمیشن رپورٹ دیکھ کر دل کرتا ہے تمام کمپنیاں بند کر دیں، دریاے سندھ اور نہر کا پانی منرل واٹر کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔

بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ گورمے کمپنی مطلوبہ معیار کے مطابق پانی تیارکر رہی ہے اور گورمے سمیت صرف دو کمپنیوں کو پانی بیچنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔

بینچ کے سربراہ نے کہا کہ سات ارب روپے ماہانہ کے حساب سے سالانہ 84 ارب روپے بنتے ہیں، 9 سال میں 756 ارب روپے منرل واٹر کمپنیوں سے جمع ہوں گے, ایک ہزار ارب ایک اور صاحب سے لیکر ڈیم اپنے پیسے سے بنائیں گے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ منرل واٹر کمپنیاں عوام کو بیوقوف بنا رہی ہیں، عوام کو چاہیے کہ منرل واٹر کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں۔

نیسلے کمپنی کے وکیل نے استدعا کی کہ منرل واٹر کمپنیوں کو بہتری کے لیے وقت دیا جائے۔

عدالت نے حکم دیا کہ کمپنیاں ایک ہفتے میں نظام ٹھیک کریں ورنہ بند کردیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ منرل واٹر کمپنیاں بند ہونے سے کوئی پیاسا نہیں مرے گا۔


متعلقہ خبریں