بھیک مانگتا مستقبل


اسلام آباد: پاکستان میں بچوں سے بھیک منگوانے کا مسئلہ بہت عام ہے جن میں سے زیادہ تر کو اغوا کرکے اس دھندے پر لگادیا جاتا ہے۔

ریاست یا حکومت کی جانب سے اس مسئلے کے حل کے لیے بھی اقدامات نہیں کیے گئے۔ حکومت بظاہر تو عوامی مفاد کے لیے کام کرتی ہے تاہم عوام کے ایک اہم حصے کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔

ایڈوکیٹ ضیا اعوان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں چائلڈ پروٹیکشن ادارے کی کمی کی وجہ سے یہ مسئلہ رونما ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ ان بچوں کو حج کے دوران سعودی عرب بھی لے کر جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے قانون موجود ہیں پر ان پر عمل نہیں ہوتا، پاکستان میں اس کام کے لیے مخصوص ادارہ ہے پر وہ کام نہیں کرتا۔

وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ اغوا کیے گئے بچوں کی بحالی کے لئے ان کی وزارت انسانی حقوق‬‎ کام کر رہی ہے۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ان بچوں کو ان کے ماں باپ کے حوالے کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

ہم انوسٹیگیٹس کی ٹیم نے یہ انکشاف کیا کہ ان بچوں کو غریب مائیں کرائے پر بھی دیتی ہیں۔ ایسے میں گداگروں کے گروہ ان بچوں کو کرائے پر لے جاتے ہیں۔ یہ بھی سامنے آیا کہ ان بچوں کو مورفین دی جاتی ہے تا کہ ان کو اپنے قابو میں رکھا جائے۔

وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ریاستی ادارے ان بچوں کو اپنی حفاظت میں لے کر ان کو تعلیم دلواتے ہیں اور ان کی ذہنی کونسلنگ بھی کرتے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما مرتضٰی وہاب کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے اب اس حوالے سے اقدامات کیے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے گداگیروں کے گرہوں کے پیچھے افراد کو قانون کے سامنے لانا ہو گا۔

قانون کی روح سے بچوں سے بھیک منگوانا غیر قانونی ہے۔ اے ایس آئی مسعود احمد کا کہنا ہے کہ ان افراد کو گرفتاریاں کرنے کے باوجود اس مسئلے کا کوئی حل نہیں نکلا۔

سماجی کارکن جنید گیلانی کا کہنا تھا کہ ان بچوں کا نہ صرف مستقبل تاریک ہے بلکہ ان کی ملکی معیشت اور سماج میں شمولیت نہ ہونے سے ملک کے مستقبل پر بھی منفی اثرات ہوتے ہیں۔

 

 


متعلقہ خبریں