فطرت کے مجرم


(رانا فیضان علی)فطرت نے اس کائنات کو ایک کچھ اس انداز سے ترتیب دیا ہے کہ اس کے بہت سے امور میں انسانی عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہے البتہ ایک خود کار نظام کے تحت یہ اپنے وجود کی بقا کو ممکن بناتی ہے۔ سارا نظام کائنات یہاں کے باسی انسانوں کی بہتری کیلئے کوشاں ہے۔

حیوانات نباتات، جمادات اپنی تفویض کردہ ذمہ داریوں کو کما حقہ نبھارہے ہیں لیکن جس کیلئے یہ کائنات سجائی و سنواری گئی وہ نہ صرف اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہے بلکہ اپنے ہی ہاتھوں سب جاننے کے باوجود اپنی تباہی کے سامان کر رہا ہے اور اسے اس کا ذرا بھی ملال نہیں۔

کرہ ارض پر بسنے والے انسان بخوبی آگاہ ہیں کہ درخت حیات انسانی کیلئے ایک خوشگوار فضا کے ساتھ ساتھ خوراک کی فراہمی اور معاشی وسماجی ترقی کا زینہ ہیں۔ بدقسمتی سے انسانوں نے اس زینے کو دیمک زدہ کر دیا ہے۔

یہ حقیت اظہر من الشمس ہے کہ درختوں کا وجود ہماری سانسوں کی ڈور برقرار رکھنے کا امرت دھارا ہے۔ کنکریٹ کے گھروں میں امن و سکون کا متلاشی انسان تیزی سے درختوں کا صفایا کرتا چلا جا رہا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 30 کھرب درخت موجود ہیں جبکہ ایک سال میں پندرہ ارب درخت کاٹے جارہے ہیں اس کے برعکس صرف پانچ ارب درخت لگائے جاتے ہیں، گیارہ ہزار سال پہلے سے اب تک انسان تین ٹریلین درختوں کا صفایا کر چکا ہے۔

یہ نقصان دنیا بھر میں موجود درختوں کا ایک تہائی ہے۔ یہ کوئی معمولی حصہ نہیں ہے اور اس سے یقینی طور پر ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ جنگلات کی کٹائی ماحولیاتی زندگی کی تبدیلی میں کردار ادا کر رہی ہے۔ زیادہ تر درختوں کی کمی لکڑی کی فراہمی اور زراعت کے استعمال کیلئے زمین کی تبدیلی سے منسلک ہے۔

جیسے جیسے عالمی سطح پر انسانی آبادی بڑھ رہی ہے ویسے ویسے شاید درختوں کی تعداد میں کمی کا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ درختوں کی افزائش اور حیاتیاتی نظام میں تنوع اور آب و ہوا کیلئے تو درخت فائدہ مند ہیں ہی لیکن یہ گرین ہاؤس گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ماحول سے ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

جنگلات کی کٹائی آب و ہوا کو بھی بہت سے طریقوں سے متاثر کرتی ہے۔ جنگلات ہمارے سیارے کے پھیپھڑے ہیں درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ لیتے ہیں اور آکسیجن اور پانی کے بخارات کو ہوا میں چھوڑتے ہیں درخت سایہ فراہم کرتے ہیں جو مٹی کو نم رکھتے ہیں۔

ان کی عدم موجودگی سے ماحولیاتی درجہ حرارت ٹھنڈی آب و ہوا میں عدم استحکام پیدا ہوتا ہے، جس سے ماحولیات کے لئے حالات اور زیادہ مشکل ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے آب و ہوا میں بدلاؤ آتا ہے۔

درختوں کے کٹنے سے نمی کی سطح گر جاتی ہے، جس کی وجہ سے باقی پورے خشک ہو جاتے ہیں، جنگلی جانوروں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ جنگلات اور آب و ہوا ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جنگل کا نقصان اور انحطاط ہماری بدلتی آب و ہوا کا ایک سبب اور نتیجہ ہے۔

درخت گلوبل وارمنگ کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جنگلات کی مسلسل کٹائی سے فضا میں گرین ہاؤس گیسوں کا تناسب بڑھ گیا ہے، جس سے عالمی حرارت میں اضافے کی پریشانی بڑھ رہی ہے۔ جنگلات کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر زہریلی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔

تاہم، جب ان کو کاٹا جاتا ہے، نذر آتش کیا جاتا ہے یا کسی اور طرح سے ان کی کھدائی ہوتی ہے تو، وہ کاربن کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ درختوں کی کمی سے کٹاؤ ہوتا ہے جو زمین کو قریبی ندیوں میں گھسیٹتا ہے۔ جنگلات فطرت کے پانی کی صفائی کی سہولیات کے طور پر کام کرتے ہیں۔

بارش کی صورت میں درخت اپنی جڑوں کی مدد سے بڑی مقدار میں پانی جذب اور ذخیرہ کرتے ہیں۔ جب ان کو کاٹا جاتا ہے تو پانی کا بہاؤ پریشان ہو جاتا ہے اور مٹی پانی روکنے کی صلاحیت کھو دیتی ہے جو کچھ علاقوں میں سیلاب اور بعض علاقوں میں خشک سالی کا سبب بنتی ہے۔

عام طور پر جنگلات میں اوسط درجہ حرارت چار سے دس ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے اور کم سے کم درجہ حرارت مائنس چھے سے دس ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے لیکن دنیا میں کئی جگہوں پر جنگلات میں درجہ حرارت ہیں سے زیادہ ماپا جا چکا ہے۔

جنگلات میں دوسرے قطعات زمین کی نسبت بارش زیادہ برستی ہے اور یہاں پر درجہ حرارت نسبتا کم ہوتا ہے۔ یہی بارش، جنگلات میں نباتاتی تنوع پیدا کرتی ہے درخت جانوروں کی رہائش اور خوراک کا ذریعہ ہوتے ہیں۔

درخت زمین کو جکڑتے اور ان ہواؤں کے سامنے مزاحم ہوتے ہیں جو مٹی کو اڑا کر دوسری جگہ لے جاتی ہیں، یوں جنگلات کے باعث ماحول ریتیلی ہوا اور دیگر آلودگیوں سے محفوظ رہتا ہے۔ جنگلات کا استعمال انسانی صحت کیلئے تیار کی گئی ادویات میں ایک بڑی تعداد میں ہوتا ہے بلکہ جنگلات سے حاصل شدہ پودے وغیرہ ہی ادویات کا ذریعہ ہیں۔

جنگلات سے بے شمارا ہم میٹریل حاصل کیے جاتے ہیں جیسے بیروزہ، تارپین کا تیل، گوند، وغیرہ۔ وہ پانی جو پہاڑوں کے چوٹیوں سے بہر کر آتا ہے ڈھلوان سطحوں سے ہوتا ہوا پہاڑی ندیوں اور دریاؤں میں جا گرتا ہے۔

ڈھلوانوں پر اس پانی کی رفتار بہت تیز ہو جاتی ہے اگر درخت اور جھاڑیاں اس پانی کی مزاحمت نہ کریں تو وہ طوفانی شکل اختیار کر کے تباہی پھیلا سکتا ہے۔

ہوا کو آبی بخارات بنا کر جنگلات بارش کا سبب بنتے ہیں۔ درخت سیم اور تھور کو روکنے کا بہترین ذریعہ ہے اور ان کی وجہ سے زمین میں زرخیزی کا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ جنگلات مختلف خوبصورت، پر کشش اور دلکش تفریح گاہیں مہیا کرتے ہیں اور زمین کی خوبصورتی میں چار چاند لگاتے ہیں۔

جنگلات مختلف خوبصورت اور مفید پرندوں اور جانوروں کی پناہ گاہیں ہیں، درخت ان کو خوراک اور سر چھپانے کی جگہ فراہم کرتے ہیں۔ جنگلات کی کٹائی اور جلنے والے جیواشم ایندھن کی ہوچکے ہیں، جس سے سمندری حیات اور ماحولیاتی نظام انتہائی خطرے میں ہے۔

جنگلات کی کٹائی کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کر رہی ہے۔ کھانے کیلئے جنگلات کی کٹائی مستقبل میں کھانے کے عدم تحفظ کا سبب بن سکتی ہے کیونکہ فی زمانہ غذائی پیداوار کیلئے استعمال ہونے والی تمام اراضی کا 52 فیصد معمولی یا شدید مٹی کے کٹاؤ سے متاثر ہے۔

طویل مدت میں، زرخیز مٹی کی کمی کا نتیجہ کم پیداوار اور کھانے کے عدم تحفظ کا باعث بن سکتا ہے۔ پاکستان بھی جنگلات کے کٹاؤ کی بدترین صورتحال سے دو چار ہے بے دریغ بڑھتی آبادی جنگلات کی کٹائی کا سبب بن رہی ہے بنی کالونیاں اور ٹاؤن بنانے والے مافیاز کو لگام دینے کا کوئی اہتمام نہیں ہے۔

دوعشروں سے یہ سلسلہ تیز ہو چکا ہے کہ سرسبز سونا اگلتی لاکھوں ایکڑ زمینیں اور کروڑوں درخت کاٹ کر دیواریں چن دی گئیں مگر آج تک نہ وہاں لوگ آباد ہو سکے اور زمینیں بھی کاشتکاری سے محروم ہو گئیں۔ پاکستان کی صورتحال اس لیے تیزی سے خطر ناک ہو رہی ہے کہ یہاں جنگلات کی شرح چار فیصد سے کم ہو کر صرف دو فیصد رہ گئی ہے حالانکہ ماہرین کا طے شدہ معیار چیخ چیخ کر یہ بتارہا ہے کہ کسی بھی ملک کے کم از کم پچیس فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے۔

درخت کاٹنے کی وجہ سے فضا میں موجود اوزون کی تہہ کمزور پڑتی جارہی ہے۔ آنے والی نسلوں کا معدوم ہوتا مستقبل بھی ہماری ہوس کی راہ میں رکاوٹ پیدا نہیں کر سکا۔

مستقبل میں ہم کس ہولناک حالات کا شکار ہونے والے ہیں کسی کو اس کی پروا نہیں۔ جنگلات کی کٹائی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے ساتھ ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ جنگلات میں لگنے والی آگ بھی جنگلات اور جنگلی حیات کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔

عام طور پر خشک موسم گرمی کی شدت جیسے فطری اسباب کو جنگل میں آگ لگنے کی بنیادی وجہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جنگل میں پکنک کے لیے آنے والوں کی بے احتیاطی کے باعث بھی بڑے پیمانے پر جنگلات آگ کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل بلوچستان کے علاقے شیرانی میں پائے جانے والے لاکھوں چلغوزے کے درخت جل کر خاک ہو گئے جن سے معاشی نقصان کے ساتھ ماحول کی آلودگی میں بھی اضافہ ہوا۔ جنگلات میں بھڑکائے گئے الاؤ، باقیات جلانے، آلات میں ہونے والی خرابی، سگریٹ بجھانے میں غفلت اور آتش زدگی کے ارادے سے آگ بھڑ کانے کے واقعات شامل ہیں۔

کئی مرتبہ آسمانی بجلی گرنے سے بھی جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات پیش آتے ہیں۔ بھڑ کنے والی آگ کی تیزی کا انحصار اس پر بھی ہوتا ہے کہ جنگل میں موجود پیڑ پودوں میں نمی کی مقدار کتنی ہے۔ خشک سالی کے باعث جنگلات میں اگر درخت اور پودے سوکھ چکے ہیں تو ایسی صورت میں وہ تیزی سے آگ پکڑتے ہیں۔

آگ کے تیزی سے پھیلنے میں تیز ہوائیں بھی بنیادی کردارادا کرتی ہیں۔ اگر تیز ہوا کے ساتھ آگ کو تازہ آکسیجن مل رہی ہو تو آگ کے شعلے مزید بلند ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ایک بڑی وجہ جان بوجھ کر آگ لگانا بھی ہے جو مافیا ملی بھگت سے درخت کا نتا ہے وہ احتساب کے خوف سے بھی جنگلات کو نذر آتش کر دیتا ہے تا کہ اپنے جرم کو لگائی گئی آگ کے پردے میں چھپایا جا سکے۔

موسمیاتی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن اور انوائرمنٹ پروگرام کا کہنا ہے کہ جنگلات میں لگنے والی آگ کے واقعات میں 2030 تک چودہ فی صد جبکہ 2050 تک تیس فی صد اور رواں صدی کے آخر تک پچاس فی صد تک اضافہ ہو جائے گا۔

قدرتی آفات اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نقصانات میں پیشگی اقدامات سے کمی کی جاسکتی ہے لیکن ہم پر لازم ہے کہ ہم شجر کاری کے سلسلے کو جاری رکھیں۔

مختلف حلقوں کی جانب سے بار ہا یہ تجویز پیش کی جا چکی ہے کہ ملک بھر میں پھیلی موٹرویز کے دونوں اطراف کروڑوں درخت لگائے جاسکتے ہیں اور اگر یہ درخت پھلدار ہوں تو پھلوں کی فروخت اور ایکسپورٹ سے قیمتی زرمبادلہ کے علاوہ ماحول کو بھی خوشگوار بنایا جا سکتا ہے۔

نہ جانے ہمارے مدارالمہام کیوں اس جانب نہیں سوچتے حالانکہ پہلے سے موجود محکموں سے یہ کام لیا جاسکتا ہے اور اگر اس پر ایک عشرہ قبل عمل کر لیا جاتا تو آج پاکستان اس کے فوائد سمیٹ رہا ہوتا۔ میری رائے میں اگر ہم نے آکسیجن کے منبع و مخزن درختوں کے حوالے سے اپنے طرز عمل میں تبدیلی پیدا نہ کی تو وہ وقت دور نہیں جب ہمیں بستر پر مصنوعی سلنڈروں کے سہارے اپنی آخری سانسیں گننے پر مجبور ہونا پڑے گا۔

اس حوالے سے ہمیں خود ہی جج بن کر خود ہی فیصلہ سنانا پڑے گا بصورت دیگر ہمیں فطرت کا مجرم گردانا جائے گا۔


متعلقہ خبریں