اسلام آباد: حزب اختلاف اور حکومت سے تعلق رکھنے والے بیشتر معروف سیاست دانوں نے طلبا یونینز پر پابندی ہٹانے کی حمایت کردی ہے۔
وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ وہ یونینز پر پابندی کو جمہوریت کے منافی سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یونینز پر پابندی کا مطلب مستقبل کی سیاست محدود کرنا ہے۔
I fully support Restoration of students unions, ban on students unions is anti democratic,we can always ensure that students politics must remain violence free and regulations may be introduced for smooth functioning but ban on students politics amounts to limit future politics
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) November 29, 2019
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ اسٹوڈنٹ یونین پر پابندی لگائی گئی لیکن طلبہ نسلی اور فرقہ وارانہ گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔
In my 16 plus years teaching in a public sector Uni in Pak, I have seen the damage ban on student unions did to our students. Instead of students from diff backgrounds coming together in a Student Union, we had students collecting together under ethnic & sectarian groups
— Shireen Mazari (@ShireenMazari1) November 29, 2019
خیبرپختونخواہ کے وزیر اطلاعت شوکت یوسفزئی کا کہنا ہے کہ وہ یونین کی بحالی کی حمایت کرتے ہیں، تاہم ماضی میں طلبہ یونین سے کئی غلطیاں بھی ہوئیں ہیں جن کو درست کیا جاسکتا ہے۔
ادھر بلاول بھٹو زرداری نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ پیپلزپارٹی نے ہمیشہ طلبا یونینز کی حمایت کی تاہم بے نظیر بھٹو کا اقدام واپس لیا گیا جس کا مقصد سوسائٹی کو سیاست سے دور کرنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ یونینز کی بحالی کیلئے طلبا آج یکجہتی مارچ کررہے ہیں، جس کا مقصد تعلیم کا حق اور جامعات کو نجکاری سے روکنا ہے۔
The PPP has always supported Student unions. The restoration of student unions by SMBB was purposely undone to depoliticize society. Today students are marching in the #StudentSolidarityMarch for the restoration of unions, implementation of right to education, 1/2
— BilawalBhuttoZardari (@BBhuttoZardari) November 29, 2019
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ انسداد جنسی ہراسگی قانون کا نفاذ، یونیورسٹیوں کو تخریب کاری سے بچانا ہے۔
طلبا یونینز پر پابندی فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور میں عائد کی گئی، ملک میں جمہوریت کی بحالی کے بعد 1988 میں محترمہ بےنظیر بھٹو نے طلبہ یونین سے پابندی ہٹانے کا اعلان کیا لیکن تین سال کے اندر یونین سازی کو اس بنیاد پر عدالت میں چیلنج کر دیا گیا کہ یہ تشدد کو فروغ دیتی ہیں۔
2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے پہلے خطاب میں طلبہ یونین کی بحالی کا اعلان کیا لیکن پیپلزپارٹی پانچ سال اقتدار میں رہنے کے باوجود اس پر عمل درآمد نہ کرا سکی۔
اگست 2017 میں سینیٹ نے اتفاق رائے سے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ملک کی یونیورسٹیوں میں طلبہ تنظیموں کو پوری طرح سے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔