العزیزیہ ریفرنس میں تمام گواہوں کے بیانات قلمبند

فوٹو: فائل


اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت نمبر دو نے نواز شریف کے خلاف قومی احتساب بیورو کی جانب سے دائر العزیزیہ ریفرنس میں استغاثہ کے تمام گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے کے بعد مزید سماعت منگل تک کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔

العزیزیہ کیس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے کی ۔ العزیزیہ ریفرنس میں جمعہ کے روز استغاثہ کے آخری گواہ کے طور پر کیس کے تفتیشی افسر محبوب عالم نے اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔

مقدمہ میں نیب کی طرف سے مجموعی طور پر 22 گواہوں کو پیش کیا گیا، گواہوں میں مختلف بینکوں کے آپریشن مینیجر اور جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء شامل تھے۔

احتساب عدالت نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں کیس کے تفتیشی افسر محبوب عالم کو جرح کے لیے طلب کر لیا ہے۔

جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کو عدالت نے پیر کے روز نواز شریف کے خلاف دائر ایک اور ریفرنس فلیگ شپ میں بیان کے لیے طلب کیا ہے۔

العزیزیہ ریفرنس میں نیب کے تفتیشی افسر محبوب عالم کا بیان 

العزیزیہ ریفرنس میں نیب کے تفتیشی افسر نے اپنا بیان قلمبند کراتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف کو شامل تفتیش ہونے کے لیے نیب نے سمن جاری کیا تھا، طلبی کے سمن پہلے ہی عدالت میں پیش کئے جا چکے ہیں ۔

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے اعتراض کیا کہ سمن ایڈیشنل ڈائریکٹر اسٹاف نیب لاہور نے بھیجے تھے، سمن پر جس کے دستخط ہیں اسے عدالت میں بطور گواہ پیش نہیں کیا گیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ طلبی کے نوٹس سے متعلق تفتیشی افسر کا بیان سنی سنائی باتوں پر مشتمل ہے ۔

تفتیشی افسر نے کہا کہ نواز شریف شامل تفتیش ہوئے ہی نہیں۔ نواز شریف اچھی طرح جانتے تھے کہ نیب سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں تفتیش کر رہا ہے۔ اس پر خواجہ حارث نے پھراعتراض کیا اور کہا کہ تفتیشی افسر قیاس آرائیوں پر مشتمل بیان دے رہے ہیں۔

تفتیشی افسر نے کہا کہ نواز شریف نے قوم سے خطاب، قومی اسمبلی میں تقریر اور جے آئی ٹی کے سامنے اپنے موقف بیان کیے، نواز شریف منی ٹریل سے متعلق مختلف موقف بیان کرتے رہے ہیں۔ نواز شریف پیش نہیں ہوئے تو ہم نے یہی سمجھا کہ ان کے پاس اپنے دفاع میں کچھ نہیں۔

خواجہ حارث نے تفتیشی کے بیان پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کے پاس دفاع کے لیے کچھ نہیں یہ تفتیشی کے رائے ہے اورتفتیشی کی ذاتی رائے کو شواہد کے طور پر ریکارڈ نہیں کیا جا سکتا۔ 

محبوب عالم نے کہا کہ تفتیش کے دوران پتہ چلا کہ حسن، حسین نواز کے پاس ہل میٹل کے قیام کے لیے ذاتی ذرائع آمدن نہیں تھے، حسین نواز شریف اور حسن نواز شریف کے پاس العزیزیہ سٹیل مل کے لیے چھ ملین امریکی ڈالر ذاتی آمدن سے موجود نہیں تھے۔ ہل میٹل کے لیے پانچ ملین برطانوی پاؤنڈ بھی ان کی ذاتی آمدن سے موجود نہیں تھے۔

خواجہ حارث نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ حسن اور حسین نواز اس ٹرائل میں شامل ہی نہیں ہوئے۔ حسن اور حسین نواز شریف سے متعلقہ شواہد نواز شریف کے خلاف استمعال نہیں ہو سکتے۔

نواز شریف کی حاضری سے استثناء کی درخواست منظور 

نواز شریف جمعہ 28 ستمبر کو ہونے والی سماعت میں پیش نہیں ہوئے۔ عدالتی کارروائی کی ابتدا میں نواز شریف کے وکیل کی جانب سے آج کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی۔ جس پر عدالت نے نواز شریف کو اج کی حاضری سے استثنیٰ دے دیا۔

العزیزیہ ریفرنس قومی احتساب بیورو نے سپریم کورٹ کے پانامہ کیس کے فیصلہ میں دیے گئے احکامات پر دائر کیا تھی۔

عدالت عظمی نے نیب کو نواز شریف، مریم نواز، کیپٹن صفدر، حسن نواز اور حسین نواز کے خلاف چھ ہفتوں کے اندر ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے احتساب عدالت کو ریفرنسز کی سماعت چھ مہینے میں مکمل کرنے کا بھی حکم دیا تھا،  تاہم احتساب عدالت مذکورہ ریفرانسز کی سماعت مقررہ مدت میں مکمل نہیں کر سکی جس کے بعد عدالت عظمی کی جانب سے کارروائی کے لیے کئی بار توسیع دی گئی ہے۔


متعلقہ خبریں