سعودی عرب قرض نہیں سرمایہ کاری لینے گئے تھے، اسد عمر


اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ ان کا دورہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا مقصد بھیک مانگنا نہیں بلکہ ملک میں سرمایہ کاری لانا تھا۔

ہم نیوز کے پروگرام”ندیم ملک لائیو” میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا دورہ نہایت کامیاب رہا، دونوں ممالک جلد ہی پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب سعودی عرب سی پیک کا تیسرا شراکت دار ہے، وہ جلد ہی سی پیک منصوبے میں بڑی سرمایہ کاری کرے گا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ اس دورے سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے تعلقات میں چھائی سرد مہری بھی ختم ہوئی ہے جو ایک خوش آئند بات ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ معاشی صورتحال قرض لے کر نہیں بلکہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ، بیرون ممالک سے آنے والی ترسیلات بڑھانے اور تجارتی خسارہ کم کرنے سے بہتر ہو گی۔

گیس قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ عالمی مارکیٹ میں گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہو چکا ہے لیکن سابقہ حکومت نے الیکشن کے ڈر سے قیمتیں نہیں بڑھائیں جس سے قومی خزانے پر 154 ارب روپے کا بوجھ پڑا۔

اسد عمر نے کہا کہ گیس کی قیمتوں میں اضافے کے سوا حکومت کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا تاہم انہوں نے یہ بوجھ غریب عوام پر نہیں بلکہ متوسط طبقے پر ڈالا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرتے ہوئے پہلی بار اسمبلی ارکان کو بھی ٹیکس کے دائرے میں لا رہے ہیں، ٹیکس سسٹم میں اصلاحات کر کے نان فائلرز کے گرد گھیرا تنگ کریں گے اور ٹیکس کی وصولی ‘بڑوں سے شروع کریں گے۔’

انہوں نے کہا کہ عوام کے لیے سہولت پیدا کرنے کے لیے ہی ٹیکس لیا جاتا ہے، ٹیکس کا پیسہ قوم کی امانت ہے، اسے کسی صورت ضائع نہیں ہونے دیں گے۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت سمندر پار پاکستانیوں پر زیادہ توجہ دے رہی ہے، حوالہ ہنڈی پر وزیراعظم کی زیر صدارت دو اجلاس ہوئے ہیں، کرنسی اسمگلنگ اور حوالہ ہنڈی سے پاکستانی معیشت کو بہت نقصان ہوتا ہے جسے روکنے کے لیے جلد اقدامات کریں گے۔

اسد عمر کا کہنا تھا کہ کئی لوگوں نے انہیں آئی ایم ایف کے پاس جانے کا مشورہ دیا تھا، لیکن ہم کسی صورت آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے کیوںکہ یہ عوام کے مفاد میں نہیں۔

وفاقی وزیرخزانہ نے کہا کہ چینی حکومت کے ساتھ سی پیک پراجیکٹ ضروری تو تھے لیکن معاشی حالت کی بحالی کے لیے ناکافی تھے۔

انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومتوں نے صرف ان منصوبوں پر کام کیا جن سے انفرا اسٹرکچر تو بن گیا لیکن معاشی بہتری اور ملازمتیں پیدا نہیں ہوئیں۔ ہم ان چیزوں پر چینیوں سے بات کر رہے ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں عالمی مارکیٹ میں چینی کمپنیوں کی سپلائی چین کے ساتھ پاکستانی کمپنیاں بھی جڑ جائیں۔


متعلقہ خبریں