مونٹائزیشن پالیسی: خلاف ورزی پر احتساب ہوگا ؟


اسلام آباد : نومنتخب وزیراعظم پاکستان عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد سادگی و کفایت شعاری کو پاکستان تحریک انصاف کی حکومتی پالیسی قرار دیا ہے۔ نئی حکومت کی اعلان کردہ پالیسی کے بعد سے  ملک کے سیاسی، سماجی اور صحافتی حلقوں میں یہ سوال زیربحث ہے کہ کیا اعلان کردہ پالیسی کا اطلاق اعلیٰ بیوروکریسی پر بھی ہوسکے گا؟

ہم نیوز کے مطابق 2011 میں سابقہ حکومت کی جانب سے گریڈ 20 سے 22 تک کے اعلیٰ افسران کے لیے ’مونٹائزیشن پالیسی‘ متعارف کرائی گئی تھی جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ یا تو اعلیٰ بیورو کریٹ سرکاری گاڑی استعمال کریں اوریا پھر اپنی گاڑی استعمال کریں اورایک مخصوص رقم اپنی تنخواہ کے ساتھ اس مد میں وصول کرلیں۔

ذمہ دار ذرائع نے ہم نیوز کو بتایا کہ اعلیٰ بیوروکریٹس کی بڑی تعداد نہ صرف سرکاری گاڑیوں کا استعمال کررہی ہے بلکہ ہر ماہ مخصوص رقم بھی وصول کررہی ہے جس سے قومی خزانے پر اضافی بوجھ پڑ گیا ہے حالانکہ اس اسکیم کا مقصد خزانے کے بوجھ کو کم کرنا تھا۔

ہم نیوز کو ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ افسوسناک امر ہے کہ اعلیٰ حکام اس مقصد کے لیے ہر ماہ مبینہ طور پر جعلی سرٹیفکٹ کابینہ ڈویژن میں جمع کرانے سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں۔

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ  سرکاری دستاویزات کے مطابق 2011 کی مونٹائزیشن پالیسی کے تحت سینئیر بیوروکریٹس  کو ماہانہ 65 سے 95 ہزار روپے اضافی دیے جارہے ہیں۔

دستیاب اعداد و شمار کے مطابق گریڈ 20 کے افسر کو ہر ماہ 65 ہزار روپے، گریڈ 21 کے افسر کو ہر ماہ 77 ہزارروپے اور گریڈ 22 کے افسر کو 95 ہزار روپے اضافی مل رہے ہیں۔

ہم نیوز کے مطابق ہر ماہ ہزاروں روپےاضافی لینے کے باوجود بیشتر بیوروکریٹس ایک سے زائد سرکاری گاڑی بھی استعمال کررہے ہیں جو سراسر قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ متعدد افسران ایک گاڑی خود استعمال کرتے ہیں اوردوسری اپنے گھروالوں کے لیے مختص رکھتے ہیں۔

ہم نیوز کے مطابق ملک کے سیاسی، سماجی اور صحافتی حلقوں کو اس بات کا انتظار ہے کہ موجودہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آخر کس طرح ان اعلیٰ سرکاری افسران پر موجود قوانین کا اطلاق کراتی ہے؟ اور اس میں وہ کس حد تک کامیاب رہتی ہے؟

موجودہ حکومت کےلیے یہ بھی ایک امتحان ہو گا کہ کیا وہ اس پالیسی کی خلاف ورزی کے مرتکب افسران کا احتساب کرسکے گی یا نہیں؟


متعلقہ خبریں