سپریم کورٹ نے ایک ناانصافی ختم کی، فیصلہ خوش آئند ہے، اعظم نذیر تارڑ

اعظم نذیر تارڑ

پاکستان مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ فیصلہ خوش آئند ہے، نوازشریف پر عائد پابندی ختم ہوگئی۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے لیگی رہنما اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اگر کوئی شخص قتل یا کوئی اور واردات کرے تو پھر بھی5سال بعد اہل ہوجاتاہے، آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ کسی شخص کو تاحیات نااہل قراردے دیا جائے۔

ماہر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ خوش آئند ہے، سپریم کورٹ نے ایک ناانصافی ختم کی ہے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کے اثاثوں میں پونے دو ارب روپے کی کمی

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے کہ سیاستدانوں کی نااہلی تاحیات نہیں ہو گی جس کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف اور جہانگیر ترین کی تاحیات نااہلی بھی ختم ہو گئی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کے کیس میں تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد 5 جنوری کو فیصلہ محفوظ سنا دیا۔

فیصلہ 6:1 کے تناسب سے جاری کیا گیا۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔

اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن ایکٹ کا قانون فیلڈ میں ہے،اس کے تحت نااہلی کی مدت 5سال ہے جسے پرکھنے کی ضرورت نہیں۔

شریف خاندان کے 4افراد کو کلین چٹ مل گئی

سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے، عدالتی ڈیکلریشن کے ذریعے 62 ون ایف کی تشریح اس کو دوبارہ لکھنے کے مترادف ہےاور حوالے سے کوئی قانونی طریقہ کار موجود نہیں ۔

اس سے پہلے 5 جنوری کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا تھا کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کیس میں ریمارکس دیے کہ تاحیات نااہلی اسلام کے خلاف ہے۔

اپنے ریمارکس میں انہوں نے مزید کہا تھا کہ سارے معاملے کا حل اسلام میں موجود ہے۔قرآن پاک میں بتایا گیا ہے کہ انسان کا رتبہ بہت بلند ہے،انسان برا نہیں اس کے اعمال برے ہوتے ہیں،62 ون ایف انسان کو برا کہہ رہا ہے،اگر کوئی شخص گناہ سے توبہ کر لے تو معافی مل سکتی ہے۔

کوٹہ پر صرف سرکاری ملازمین کے بچوں کو نوکری کیوں ؟ ایسی پالیسی کو اٹھا کر پھینک دینا چاہئے ، چیف جسٹس

درخواست گزار فیاض احمد غوری اور سجادالحسن کے وکیل خرم رضا نے عدالتی دائرہ اختیار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ یہ کیس کس دائرہ اختیار پر سن رہی ہے؟ کیا آرٹیکل187 کے تحت اپیلیں ایک ساتھ سماعت کیلئے مقررکی گئیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے وکیل خرم رضا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی درخواست تک محدود رہیں، جس پر خرم رضا کا کہنا تھا عدالت مقدمے کی کارروائی 184/3 میں چلا رہی ہے یا 187 کے تحت؟ آرٹیکل 62 میں کورٹ آف لا کی تعریف نہیں بتائی گئی۔

وکیل خرم رضا نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کی ڈکلیئریشن دینے کا اختیار الیکشن ٹربیونل کا ہے، آرٹیکل 62 ون ایف میں کورٹ آف لا درج ہے سپریم کورٹ نہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا بہتر ہوگا ہمیں الیکشن ٹربیونل کے اختیارات کی طرف نہ لیکر جائیں، آرٹیکل 62 ون ایف کورٹ آف لا کی بات کرتا ہے۔

جوڈیشل کمیشن اجلاس، پشاور ہائیکورٹ کے 3ایڈیشنل ججز کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی توسیع

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا آرٹیکل 99 ہائیکورٹ کو آرٹیکل 184/3 سپریم کورٹ کو ایک اختیار دیتا ہے، سوال یہ ہے کیا آرٹیکل 62 ون ایف سپریم کورٹ کو کوئی اختیار دیتا ہے؟

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا ٹربیونل کے فیصلے کیخلاف کیس سپریم کورٹ اپیل کے دائرہ اختیارمیں سنتی ہے، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا درست، لیکن کیا 62 ون ایف ٹربیونل کو بھی تاحیات نااہلی کا اختیار دیتا ہے؟ یا تاحیات نااہلی کا یہ اختیار سیدھا سپریم کورٹ کے پاس ہے؟

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا آئینی عدالت اور سول کورٹ میں فرق کو نظر انداز نہیں کر سکتے، سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ آئینی عدالتیں ہیں جہاں آئینی درخواستیں دائرہوتی ہیں، الیکشن کمیشن قانون کے تحت اختیارات استعمال کرتا ہے، اگرالیکشن کمیشن تاحیات نااہل کرسکتا ہے تواختیار سپریم کورٹ کے پاس بھی ہوگا۔


متعلقہ خبریں