اسلام آباد(زاہد گشکوری، ہیڈ ہم انویسٹی گیشن ٹیم) بارہ سال سے دوسرکاری بینکوں کے 2 لاکھ نادہندگان کے ذمے 177 ارب روپے قومی خزانے میں واپس نہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے.
ہم انویسٹی گیشن کو موصول دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ نیشنل بنک آف پاکستان کے 14755 نادہندگان کے ذمے 126 ارب روپے واجب الادا ہیں، دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ زرعی ترقیاتی بینک کو1 لاکھ 78 ہزارناہندگان نے 53 ارب روپے کے قرضے واپس کرنے ہیں۔
موصول دستاویزات سے انکشاف ہوا ہے کہ دونوں بینکوں 1990 سے 2000 نادہندگان کے 50 ارب روپے کے قرضے معاف کرچکے،زرعی بینک کےمجموعی کاروبار کا 29 فیصد ذمہ ڈیفالٹرزپر ہے۔
اعلی حکام سے پتہ چلا ہے کہ ڈیفالٹرز سے قرض واپسی پر زرعی بینک کا سالانہ منافع 5 ارب روپے سے بڑھ کر20 ارب روپے تک بڑھ سکتا ہے
حکام نے مزید بتایا ہے کہ قرضے کی ریکوری سے نیشنل بینک کا سالانہ منافع 31 ارب سے بڑھ کر70 ارب تک پہنچ سکتا ہے، حکام مزید کہتے ہیں کہ قرضہ ڈیفالٹ کرنے والوں میں 42 ہزار چھوٹے کسان، 5600 چھوٹے تاجر، 1214 سابق طالب علم بھی شامل ہیں۔
بینک حکام نے ہم انویسٹگیشن ٹیم کو بتایا ہے کہ نادہندگان میں 11 صنعت کار، 16 تاجر، 21 سابق ممبران پارلیمنٹ اورایک لاکھ سے زائد عام شہری بھی شامل ہیں
2018 سے نیشنل بینک کے نادہندگان میں 5 ہزار افراد کا اضافہ ہوا، دستاویزات سے مزید پتہ چلتا ہے کہ نیشنل بینک کے ڈیفالٹ کی رقم میں 2018 سے ابتک 64 ارب روپے کےاضافے کا انکشاف، بینک دستاویزات کے مطابق نیشنل بینک کے 2018 اور 2019 میں 38 ارب کے قرضوں کا ڈیفالٹ ہوا ہے۔
صرف پچھلے چھ ماہ میں نئے 54 نادہندگان کے 3 ارب روپے کے اضافے کا انکشاف ہوا ہے،زرعی بینک کے ایک لاکھ 69 ہزار نان پرفارمنگ لون کےنادہندگان شامل ہیں۔
دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ زرعی بینک کے نان پرفارمنگ لون کی رقم 49 ارب تیس کروڑ ہے، سال 2020 میں سب سے زیادہ دو لاکھ 63 ہزار ڈیفالٹرزتھے، سال 2020 میں 71 ارب سے زائد رقم نادہندگان پر واجب الادا تھی،
بڑے ڈیفالٹرز نے بینکوں کے اربوں روپے کے قرضے واپس کرنے ہیں، انفرادی بڑے ڈیفالٹرز میں معشوق علی بھٹو کے ذمے سوا چودہ ارب ہیں، ایم اے شمیم نے بینک پانچ ارب واپس کرنے ہیں، شہناز بیگم کے ذمےسوا چارارب روپے کے واجبات ہیں،محمد حسین کے ذمے پانچ ارب 80 کروڑ ہیں۔
امبرشیرازی کے ذمے 2 ارب 82 کروڑ کے قرضے واجب الادا ہیں، بینکنگ قانون کے سیکشن 33 اے تحت اپنے کسٹومرز کی معلومات شئیر نہیں کرسکتے،
بینک انتظامیہ کا موقف ہے کہ سیکشن 33 اے کسٹومرز کی ذاتی اور قرضے سے متعلق معلومات کو محفوظ کرتا ہے، بینک انتظامیہ کئی بار سوال نامہ بھیجا گیا لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔