آئی ایم ایف معاہدہ قومی اسمبلی میں پیش: زراعت اور رئیل اسٹیٹ پر نیا ٹیکس نہیں لگے گا، اسحاق ڈار

ishaq Dar

اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے واضح طور پر کہا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے تحت زراعت اور رئیل اسٹیٹ پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔

پی آئی اے کو ری اسٹرکچر نہ کیا تو ایک،ڈیڑھ سال میں بند ہو سکتی ہے، خواجہ سعد رفیق

انہوں نے قومی اسمبلی اجلاس میں آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی دستاویزات پیش کرتے ہوئے کہا کہ  ایوان کو بتایا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر بطور وزیر خزانہ میں اور گورنر اسٹیٹ بینک دستخط کریں گے، کاپی اس ہاؤس کو فراہم کریں گے، یہ کام شفافیت کے لیے ضروری ہے، اس طرح کی جو بھی پیش رفت ہو اس سے اس ایوان کے معزز اراکین کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ ماضی میں بھی آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے ہوئے، 1999 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد 8 ماہ آئی ایم ایف کا پروگرام معطل ہونے کے بعد بحال ہوا تو اس کی تفصیلات ویب سائٹ پر ڈال دی تھیں، لیٹر آف انٹینٹ، میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانسل پالیسیز اور ٹیکنیکل میمورنڈم آف انڈر اسٹینڈنگ کی کاپیاں لائبریری میں رکھنے کے لیے پیش کیں تا کہ کوئی بھی اس کو دیکھ سکے۔

انہوں نے کہا کہ نواں جائزہ نومبر 2022 میں ہونا تھا جب کہ دسواں جائزہ فروری 2023 اور گیارہواں جائزہ مئی 2023 میں ہونا تھا، ان تینوں کی مالیت 2.5 ارب ڈالرز تھیں، یہ پروگرام 2019 میں شروع ہوا تھا، 2022 میں یہ ختم ہو جانا چاہیے تھا لیکن پروگرام معطل ہوئے، گزشتہ حکومت کے معاہدے سے انحراف کی وجہ سے اس میں وقت لگا۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ کے دنوں میں اس حوالے سے سوال بھی پوچھے گئے، ہماری تیاریاں مکمل تھیں، ہم نے کوششیں کیں کہ دسویں اور گیارہویں جائزے کے 1.4 ارب ڈالر لیپس ہونے سے بچ جائیں، ہم نے اس کا سائز ڈھائی ارب ڈالرز کے بجائے ساڑھے 3 ارب ڈالرز تک لے جانے کی کوشش کی، 3 ارب ڈالرز پر ہماری مفاہمت ہو گئی جس کی مدت 9 ماہ رکھی گئی ہے تاکہ نئی حکومت کے آنے تک یہ پروگرام ختم ہو چکا ہو اور حکومت اقتدار سنبھالنے کے بعد ملکی مفاد میں اقدامات اٹھائے۔

ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ کا پلان ہے،وزیر خزانہ اسحاق ڈار

انہوں نے کہا کہ 215 ارب کے مالیاتی اقدامات اٹھائے، اپنے اخراجات کم کیے، اس کے نتیجے میں بجٹ کی منظوری کے بعد اسٹاف لیول معاہدہ ہوا، 30 جون کو اسٹاف لیول معاہدے کے بعد 12 جولائی تک متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے وعدے کے مطابق ہمیں امداد فراہم کی، 12 جولائی کو بورڈ کی سطح پر معاہدے کی منظوری ہوئی جس کے بعد ایک ارب 19 کروڑ ڈالرز پاکستان کو موصول ہوگئے، اس سے غیر ملکی زرمبادلہ کے ہمارے ذخائر کی مینجمنٹ میں مدد ملی۔

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈارنے کہا کہ نئی حکومت کے آنے پر اسٹیٹ بینک کے پاس 9.6 ارب ڈالرز اور کمرشل بینکوں کے پاس 5 ارب ڈالرز تھے، ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 14 ارب ڈالرز کے قریب تھے، ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ تمام ساورن ادائیگیاں وقت پر کرنی ہیں، اس پر کوئی تاخیر یا ڈیفالٹ نہیں کرنا، اس وجہ سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر ایک وقت میں 8 ارب ڈالرز تک آ گئے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ہم اپنے ذخائر اسی سطح پر چھوڑ کر جائیں جتنے آتے وقت تھے، ہم نے بروقت ادائیگیاں بھی کی ہیں، ہماری کوشش ہے کہ ایسی پالیسی ہو کہ آنے والے وقتوں میں مہنگائی کا طوفان تھمے، اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ دو سال میں افراط زر کی شرح 7 فیصد تک آ جائے گی، یہ ملک کے لیے اچھی خبر ہے، ہمیں سیاست کو ایک طرف رکھ کر میثاق معیشت کرنا چاہیے۔

ن لیگ کے مرکزی رہنما سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ آئی ایم ایف معاہدے کے تحت زراعت اور تعمیرات پر ٹیکس لگانے کے حوالے سے خبریں اخبارات میں چھپیں، ہم اس کی تردید کرتے ہیں کہ زراعت اور ریئل اسٹیٹ پر کوئی ایک بھی نیا ٹیکس لگایا جائے گا، ہم نے جتنی تکالیف کاٹنی تھیں وہ کاٹ چکے ہیں، ان خبروں کے چھپنے سے دیہی علاقوں کے زراعت سے وابستہ افراد میں تشویش پیدا ہوئی، ہم نے معاہدے کی کاپیاں فراہم کر دی ہیں، اس میں مستقبل کے تمام وعدے شامل ہیں۔

آئی ایم ایف کی قرض کیساتھ ہی مزید شرائط ،منی بجٹ کا امکان

قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ وزارت خزانہ کو واضح ہدایات دی ہیں کہ رات 12 بجے سے پہلے یہ تینوں دستاویز ویب سائٹ پر ڈال دی جائیں تاکہ ان تک ہر کسی کو رسائی حاصل ہو۔


متعلقہ خبریں