قلعہ نما سرائے، اسلام آباد راولپنڈی کے انتہائی قریب قدیم تاریخ کا نشان


اسلام آباد سے 25 اور راولپنڈی سے 16 کلومیٹر دور قلعہ روات سلاطین دہلی،مغلوں اورگکھڑ قبیلے کی یاد تازہ کرتا ہے۔

یہ قلعہ جی ٹی روڈ پر روات بازار کے ساتھ واقع ہے اس لئے یہاں پہنچنا زیادہ مشکل نہیں۔اسلام آباد یا راولپنڈی سے آنا ہو تو ٹی چوک سے گزر کر آگے روات بازار تک پہنچیں پھرلاہورکی طرف جاتے راستے پرسے یوٹرن لے کر واپس راولپنڈی اور اسلام آباد کی طرف مڑیں تو ساتھ بازار میں قلعے کے مرکزی دروازے پر نظر پڑتی ہے۔

بازار سے اوپر جائیں تو سامنے ہی قلعہ موجود ہے۔خاص بات یہ ہے کہ اس کے چاروں اطراف پکے گھر اور درمیان میں قدیم دور کی یہ یادگار قلعہ موجود ہے۔قلعے کا داخلی دروازہ مخدوش ہونے پر دوبارہ تعمیر کیا جارہا ہے۔

قلعے سے اندر داخل ہوں تو وسیع لان ہے جس کی حالت تو کچھ بہتر نہیں لیکن یہ بیان کررہا ہے کسی دور میں یہاں چہل قدمی ہوا کرتی تھی۔اسی لان میں چند قبریں بھی موجود ہیں۔انہی میں سے ایک گکھڑ قبیلے کے سردار سلطان سارنگ خان کی بھی ہے۔جن کے بارے میں تاریخ سے پتہ چلتا ہے وہ مغلوں کے وفادار تھے۔اس قلعے پر ان کی حکمرانی شیر شاہ سوری کی فوج کی پیشقدمی روکنے کیلئے تھی۔جب شیر شاہ سوری نے ہمایوں بادشاہ کو شکست دی تو اس نے سلطان سارنگ خان سے لڑنے کی ٹھان لی۔روات کے مقام پر دونوں فوجوں کے درمیان جنگ ہوئی جس میں سلطان سارنگ خان شکست کھا گیا اور اپنے 16 بیٹوں سمیت مارا گیا۔ان کمی سب کی قبریں روات قلعے کے اندر موجود ہیں۔

قلعے میں ایک بڑے گنبد والا مقبرہ بھی ہے جس میں کوئی قبر تو موجود نہیں لیکن اس کی تعمیر بتاتی ہے کہ یہ اپنے دور میں ایک شاندار عمارت ہوا کرتا تھا۔اس کی تعمیر میں سنگ مرمر اور قیمتی پتھروں کا استعمال کیا گیا، سنگ مر مر اور وہ قیمتی پتھر تو موجود نہیں لیکن مقبرہ اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے۔

پاکستان کی کتنی آبادی جادو ٹونے پر یقین رکھتی ہے؟ حیرت انگیز رپورٹ

اس مقبرے کے ساتھ تین گنبدوں والی قابل دید مسجد فن تعمیر کا خوبصورت شاہکار اور آج بھی آباد ہے۔جہاں پانچوں وقت نماز کی ادائیگی کی جاتی ہے۔مسجد کو قلعے کا انتظام سنبھالنے والوں نے بہترین انداز میں رکھا ہوا ہے۔

قلعے کے فصیل کے ساتھ تین دروازے بنے ہیں جو مشرق،شمال اور جنوب میں واقع ہیں۔مرکزی دروازہ مشرقی جبکہ عقبی شمال کی طرف ہے۔دونوں دروازے اصل حالت میں موجود ہیں تاہم جنوبی دروازہ آبادی میں آنے کی وجہ سے بند ہوچکا۔مرکزی دروازے کے ساتھ پہرہ داروں کیلئے 2 کمرے بھی موجود ہیں۔

قلعے اور مزار کا سنگ، خطہ پوٹھوہار کا دلکش رنگ

قلعے کے اندر چاروں اطراف حجرے بنے ہوئے ہیں۔جن دیواریں خستہ حال ہوچکیں۔انہیں دیکھ کر لگتا ہے یہ حجرے قدیم دور میں قافلوں کے ٹھہرنے کیلئے ہوا کرتے ہوں گے۔قلعے کے لان میں صفائی ستھرائی کیلئے کوڑا دان بھی لگائے گئے ہیں۔

قلعے کے باہر ایک بورڈ آویزاں ہے جس پر درج تحریر یہ بتاتی ہے کہ قلعہ 15 ویں صدی کے آغاز میں سلاطین دہلی کے دور میں تعمیر ہوا۔تاہم اسے سلطان محمود غزنوی کے بیٹے مسعود سے بھی منسوب کیا گیا ہے۔جس کا دور 1036 رہا۔اسی بورڈ پر یہ بھی درج ہے کہ روات عربی زبان کے لفظ رباط کی بگڑی شکل ہے۔جس کے لغوی معنی کارروان سرائے کے ہیں۔۔یہاں موجود حجروں سے یہی لگتا ہے کہ یہ قلعہ سرائے تھا۔

اونچائی پرہونے کی وجہ سے یہ قلعہ دفاعی اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔مقامی افراد کا کہنا ہے کہ قلعہ چاروں اطراف سے کافی وسیع تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس کا حدود اربع کم ہوتا گیا اور آس پاس موجود آبادی بڑھتی گئی۔قلعے کے اندرکوئی رہائشی عمارت موجود نہ ہونے سے ظاہرہوتا ہے کہ یہ قلعہ دفاع کے طور پر فوجی اغراض ومقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہوگا۔

قلعے کے اندر موجود لان اب چاروں اطراف آبادی کیلئے گزرگاہ بن چکا ہے۔مشرقی دروازے کی جانب والی آبادی کے لوگ قلعے کی اس گزرگاہ کو استعمال کرکے بازار اور جی ٹی روڈ تک پہنچتے ہیں۔

سیاح اس قلعے میں آتے جاتے رہتے ہیں بالخصوص ارگرد گرد کی آبادی کے لوگ تفریح کے لئے یہاں کا رخ کرتے ہیں،قدیم عمارت کے ساتھ تصاویر بنواتے ہیں۔اس وقت قلعے کی بحالی کا کام بھی جاری ہے جو یقینی طور پراس تاریخی ورثے کو خوبصورت بنانے اور سیاحت کے فروغ کیلئے اہم ہو سکتا ہے۔


متعلقہ خبریں