اسلام آباد میں کرکٹ اسٹیڈیم کی تعمیر کے لیے مدد کریں گے،چیف جسٹس


اسلام آباد:چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کو چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ نجم سیٹھی نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اگر اسلام آباد اسٹیڈیم نیشنل پارک کا حصہ ثابت ہوا تو پی سی بی واپس کردے گا۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل پارک میں کرکٹ اسٹیڈیم کی تعمیر میں دلچسپی نہیں رکھتے لیکن  اسلام آباد میں کرکٹ اسٹیڈیم کی تعمیر میں گہری دلچسپی ہے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے شکرپڑیاں اسلام آباد میں کرکٹ اسٹیڈیم کی تعمیر کیس کی سماعت کی۔

سپریم کورٹ نےدو مئی کو شکرپڑیاں میں کرکٹ اسٹیڈیم کی تعمیر روکتے ہوئے درخت کاٹنے پر پابندی لگادی تھی۔

90 سال سے زائد عمر کے سابق وفاقی سیکریٹری داخلہ روئیداد خان نے سپریم کورٹ میں شکرپڑیاں میں کرکٹ اسٹیڈیم کی تعمیر کے خلاف درخواست دائر کی ہے۔

دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ حکومت شکرپڑیاں میں کرکٹ اسٹیڈیم اور فائیو اسٹار ہوٹل بنانا چاہتی ہے جو آلودگی میں اضافے کا سبب بنے گا۔

درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیاہے کہ مارگلہ نیشنل پارک ایک خوبصورت وادی ہے اور نیشنل پارک میں بااثر افراد کو کرشنگ اور درختوں کی کٹائی کا اختیار دے دیا گیا ہے۔

درخواست گزار روئیداد خان نے تسلیم کیا کہ عدالتی حکم کے بعد مارگلہ پہاڑیوں سے کرشنگ اور درختوں کی کٹائی کا عمل ختم ہوا ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے دوران سماعت ریمارکس میں کہا کہ سی ڈی اے ثابت کرے کہ اسٹیڈیم نیشنل پارک کا حصہ ہے یا نہیں؟ہم کھیلوں کو سپورٹ کرتے ہیں،کھیل صحت مندانہ سرگرمی ہے، ہم آپ کو اسلام آباد میں کرکٹ اسٹیڈیم کے لیے جگہ لینے میں مدد کریں گے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس میں واضح کیا کہ نیشنل پارک میں متاثرہ سائٹ کو اس کی اصل شکل میں بحال کرائیں گے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ کرکٹ اسٹیڈیم نیشنل پارک کی حد بندی میں آتا ہے،سی ڈی اے نے شکرپڑیاں میں کرکٹ اسٹیڈیم کی تعمیر روک دی ہے۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ پی سی بی نے کرکٹ اسٹیڈیم کے لیے 48 ایکڑ زمین 2008 میں مانگی تھی، سی ڈی اے نے کرکٹ اسٹیڈیم کی تعمیر 2013 کے بعد روک دی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے واضح کیا کہ پی سی بی کے ساتھ ڈیل بھی نہیں ہوئی تھی۔

چیئرمین سی ڈی اے نے عدالت کو بتایا کہ ایم او یو کے تحت پی سی بی کو 35 ایکڑ کا قبضہ دیا گیا اور یہ 33 سال کی لیز پر دینی تھی۔

چیئرمین سی ڈی اے نے بتایا کہ پی سی بی اور سی ڈی اے کے مابین ایم او یو پر عمل نہ ہو سکا۔

پی سی بی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سی ڈی اے کو پی سی بی نے 50 کروڑ روپے دیے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ ایم او یو کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور نیشنل پارک میں اسٹیڈیم کی تعمیر نہیں ہوسکتی۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے استفسار کیا کہ اسٹیڈیم کی تعمیر کس دور میں ہوئی؟

ماحولیاتی ایجنسی کے حکام نے بتایا کہ باؤنڈری وال 2012-13 میں تعمیر ہوئی اور ہم نے کسی قسم کی اجازت نہیں دی۔

ڈی جی ماحولیات نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ 30 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا لیکن ادا نہیں کیا گیا۔

چیئرمین نجم سیٹھی نے کہا کہ پی سی بی ماحول دوستی کے لیے کام کرنے کو تیار ہے۔ہم عدالت اورماحولیاتی ایجنسی کے ساتھ ہیں۔سی ڈی اے کی ذمہ داری تھی کہ وہ ہمیں نیشنل پارک میں جگہ ہی نہ دیتی۔ انہوں نے روئیداد خان کی درخواست سے اتفاق کیا اورکہا کہ نیشنل پارک میں اسٹیڈیم کی تعمیر نہیں ہونی چاہیے۔

نجم سیٹھی نے کہا کہ اسٹیڈیم کی تعمیر کا منصوبہ 2008 میں شروع ہوا تھا اور جب میں چیئرمین پی سی بی بنا تو کہا گیا کہ اس سائٹ پر اسٹیڈیم تعمیر نہیں ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ نے کام کرنا ہے تو ملک میں آرٹ اور کلچر کو فروغ دیں لیکن یہ نہ ہو کہ آرٹ و کلچر کے نام پر مچھلی اور پکوانوں کی دکانیں بنا کر ماحول کو خراب کرتے رہیں۔ انہوں نے کہا کہ قذافی اسٹیڈیم لاہور کے گرد اتنی دکانیں بن گئی ہیں کہ ان کا دھواں بھی اسٹیڈیم میں آتا ہے لیکن پی سی بی کے کچھ ملازمین کی شاید وہاں سے روزی روٹی لگی ہے۔

سپریم کورٹ نے سماعت کے بعد اسٹیڈیم کی تعمیر روکنے کا حکم برقرار رکھا اور تجاویز طلب کرلیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سماعت کرنے والے بنچ نے دو ہفتوں کے لیے سماعت ملتوی کردی۔


متعلقہ خبریں