اسلام آباد: پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے جبکہ بے روزگاری کی شرح نواعشاریہ ایک (9.1) فیصد ہوگئی ہے۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونائیٹڈ نیشنل ڈویلپمنٹ پروگرام کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں نوجوان مردوں اورخواتین کی شرح برابر ہے جبکہ 70 فیصد نوجوان پڑھے لکھے ہیں۔
پاکستان کی آبادی کا 64 فیصد 30 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے جبکہ 29 فیصد کی عمر 15 سے 29 سال کے درمیان ہے۔
رپورٹ کے مطابق رجسٹرڈ ووٹرزکی 80 فیصد آبادی نے ووٹ کا حق استعمال کیا ، 100 میں سے 64 نوجوان شہروں میں آباد ہیں ۔ 48 فیصد نوجوان پاکستان کے روشن مستقبل کی امید رکھتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق صرف 24 فیصد نوجوانوں کو سیاست دانوں پر اعتماد ہے۔ اس کے باوجود 90 فیصد لڑکوں اور 55 فیصد لڑکیوں کا کہنا ہے کہ وہ آئندہ الیکشن میں ووٹ ڈالیں گے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کھیلوں کی سہولتیں صرف سات فیصد نوجوانوں کو حاصل ہیں ، 85 فیصد انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم ہیں جبکہ 48 فیصد کے پاس ذاتی موبائل فون بھی نہیں۔
ملک کی 33 فیصد نوجوان آبادی شادی شدہ ہے ، 55 فیصد پنجاب اور 23 فیصد سندھ میں رہ رہے ہیں۔
روزگار
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں صرف 39 فیصد نوجوانوں کو روزگار کے مواقع حاصل ہیں، دو فیصد مردوں اور خواتین کو روزگار کی تلاش ہے جبکہ 57 فیصد بے روزگاروں کو ملازمت کی تلاش ہی نہیں۔
پاکستان میں 77 فیصد نوجوان روزگار کی خاطر تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں۔
15 سے 29 سال کی آبادی ملک کی مجموعی لیبر فورس کا 41.6 فیصد ہے جبکہ 40 لاکھ نوجوان ہرسال جاب مارکیٹ میں داخل ہو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان کو چاہیے کہ وہ ہرسال دس لاکھ افراد کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کرے۔
ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس (ایچ ڈی آئی) میں اسلام آباد ملک میں سب سے آگے ہے۔ کاروبار، تعلیم اورملازمت کے مواقع شہراقتدار میں سب سے زیادہ ہیں۔ اسلام آباد کا ایچ ڈی آئی صفراعشاریہ آٹھ سات پانچ (0.875) ہے۔ اس کے بعد آزاد کشمیرمیں مواقع سب سے زیادہ ہیں جہاں انڈیکس صفراعشاریہ سات تین چار(0.734) ہے۔
پبلک ٹرانسپورٹ
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقیاتی پروگرام کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 77 فیصد نوجوان ذاتی سواری سے محروم ہیں ، صرف 12 فیصد کے پاس اپنی سواری ہے جبکہ محض ایک فیصد افراد ذاتی کار رکھتے ہیں۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہرکراچی کی آبادی ڈیڑھ کروڑ ہے اور آج بھی اس شہر کے لوگ چنگ جی رکشوں اور کھٹارا بسوں میں سفرکرنے پر مجبور ہیں۔
پبلک ٹرانسپورٹ کے حوالے سے پنجاب حکومت نے قدرے بہتر کام کیا ہے۔ ملتان، لاہوراور راولپنڈی میں میٹرو بس منصوبے مکمل کیے گئے جبکہ اورنج ٹرین منصوبہ بھی اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ کے پی حکومت نے بھی پشاورمیں میٹروبس منصوبہ شروع کر رکھا ہے جو فی الوقت زیر تعمیر ہے۔
تعلیم و صحت
جنوبی پنجاب میں تعلیم اور صحت سے متعلق محرومیاں ختم نہیں ہوسکیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں سب سے کم ترقی یافتہ علاقوں میں جنوبی پنجاب کے شہر شامل ہیں۔
پنجاب کے ترقی یافتہ شہروں میں لاہور اور راولپنڈی شامل ہیں لیکن ڈی جی خان ، راجن پور اور مظفرگڑھ کا شمارہیومن انڈیکس میں سب سے نچلی سطح پر ہوتا ہے۔
تعلیم کے حوالے سے بھی لاہوراور راولپنڈی میں شرح تعلیم بلند اوررحیم یارخان، مظفرگڑھ اورراجن پور کی پست ترین ہے۔ اسی طرح صحت کے شعبے میں ترقی کی شرح میانوالی، ڈی جی خان اور بھکر میں کم ترین رہی۔
رہن سہن کی ترقی میں لاہور پہلے نمبر پر رہا جبکہ جنوبی پنجاب کے علاقے راجن پور، مظفر گڑھ اور ڈی جی خان میں معیار زندگی سب سے نچلی سطح پر ہے۔
پاکستان نیشنل ہیومن ڈیویلپمنٹ کے مطابق ملک میں تعلیم اور روزگار کے اعداد و شمار تسلی بخش نہیں ہیں۔
پاکستان کے 36 فیصد نوجوان اپنے مستقبل سے ناامید ہیں ، 16 فیصد کی رائے ہے کہ مستقبل میں کچھ تبدیل نہیں ہوگا۔ ایک سے پانچ سال کی عمر کے بچوں کے لیے تعلیم کے 16 فیصد ، چھ سے دس سال کی عمر تک 40 فیصد ، گیارہ سے 12 سال کے درمیان کے لئے صرف نو فیصد اور 12 سال سے زائد عمر کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے صرف چھ فیصد مواقع حاصل ہیں۔ 29 فیصد افراد کو تعلیم کی سہولتیں ہی میسرنہیں۔
اسکولوں میں داخلے کی شرح ایک فیصد بھی نہیں بڑھ رہی۔ انرولمنٹ کی موجودہ رفتارمیں اضافہ نہ ہوا تو سکولوں سے باہر بچوں کی شرح صفر کرنے کا ہدف پورا کرنے میں 60 سال لگ جائیں گے جبکہ 2030 تک تمام بچوں کو اسکول بھیجنے کے لیے انرولمنٹ کی شرح تین اعشاریہ آٹھ (3.8) فیصد سالانہ بڑھانی ہوگی۔
صوبوں کے ضمن میں پنجاب کا ایچ ڈی آئی صفر اعشاریہ سات تین دو (0.732) کے ساتھ سب سے آگے جبکہ بلوچستان صفراعشاریہ چاردوایک (0.421) کے ساتھ سب سے پیچھے ہے۔