نامور شاعر محسن نقوی کو بچھڑے 25 برس بیت گئے

فوٹو: فائل


منفرد لہجے اور منفرد انداز کے مالک اردو ادب کے نامور شاعر محسن نقوی کو مداحوں سے بچھڑے پچیس برس بیت گئے، محسن نقوی کا نام اور کلام آج بھی زبان زد عام ہے۔ 

محسن نقوی كا طرز تقلیدی نہیں بلكہ شعری ترجیحات سے ہم آہنگ تھا جس میں اپنے ماحول سے اخذ كردہ نئی تشبیہات، استعارات اور علامتوں کے استعمال نے جدت پیدا کی۔ 

لوگو بھلا اس شہر میں کیسے جئیں گے ہم جہاں

ہو جرم تنہا سوچنا لیکن سزا آوارگی

انہوں نے جدیدت كے شوق میں غزل كی روایات كو نظرانداز نہیں كیا بلکہ شعری ترجیحات کو نئے استعاروں کے ساتھ ملا کر خوبصورت کلام مرتب کیا۔ 

محسن نقوی غزل، نظم اور مرثیہ نگاری میں مہارت رکھتے تھے، شہرہ آفاق نظم یا اللہ یا رسول بے نظیر بے قصور بھی انہی کے قلم کی تخلیق ہے۔

یہ رونقیں، یہ لوگ، یہ گھر چھوڑ جاؤں گا

اک دن میں روشنی کا نگر چھوڑ جاؤں گا

15 جنوری 1996 کو لاہور میں محبتوں کا محسن نفرتوں کی بھینٹ چڑھا۔

انہوں نے غزل اور نظم میں بے مثال خزانہ چھوڑا، مرثیہ نگاری سے شہرت حاصل کی اور 15 جنوری 1996 کو محبتوں کے محسن کو دہشت گردی کے اندھیرے نگل گئے۔ ان کی تدفین آبائی علاقہ ڈیرہ غازی خان میں ہوئی۔

دل کو چھو لینے والی شاعری تخلیق کرنے والے اور اپنے درد کو الفاظ میں پرونے والے محسن نقوی  24برس بعد بھی مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

محسن کو رلائے گا تاحشر لہو اکثر

زہرا تیری کلیوں کا صحرا میں بکھر جانا

محسن نقوی  کے مجموعہِ کلام میں عذاب دید، خیمہ جاں، برگ صحرا اور دیگر کتابیں شامل ہیں۔ اہل بیت کی محبت اور واقعہ کربلا جا بجا ان کی شاعری میں نظر آتا ہے۔


متعلقہ خبریں