انسان کو کھانے کے لیے برتن کی ضرورت پڑی تو ابتدا میں اس نے پتو ں کو بطور برتن استمعال کیا اور پھر وقت بدلنے کے ساتھ انسان کی تخلیقی صلاحیتوں میں تبدیلی آئی اور یوں مٹی کے برتن بننا شروع ہوئے۔
اس وقت سے مٹی اور انگلیوں کا رشتہ ہزاروں سال سے قائم ہے اور کہا جاتا ہیں کہ ظروف سازی کی ابتدا ایران سے ہوئی تھی۔
پاکستان میں سندھ کے مقام پر موئن جودوڑجو ہزاروں سال قبل مسیح کی ہے وہاں پر بھی دیگر نودرات کے ساتھ ظروف سازی کے اثار ملے ہیں۔ وقت گرنے کے ساتھ طرتن سازی کے فن میں جدت آئی اور اب مٹی کی جگہ پلاسٹک اور شیشے نے لی ہے۔
پشاور میں ایک ایسا گاؤں بھی ہے جہاں100 سے زائد گھروں میں آج بھی مٹی کے برتن بنائے جاتے ہیں۔ پشاور کا نواحی علاقہ موسیٰ زئی کے ہر گھر سے مٹی کی خوشبوآتی ہیں اس گاوں کا ہر بوڑھا، جوان اور بچہ ایسے فنکار ہیں جو بے جان مٹی میں گویا جان ڈال دے۔
یہاں کے باسی کہتے ہیں کہ یہ فن اِن کو اپنے اباواجداد سے ورثے میں ملا۔ ہم نیوز سے بات کرتے ہوئے ابرار نام کا کمہار نے بتایا کہ اس کا پر دادا، دادا، اور والد ظروف سازی سے منسلک تھے۔
ابرار نے بتایا کہ’بزرگوں کے بعد یہ فن مجھے ملا اور اب وہ اپنی نئے نسلوں تک منتقل کر رہا ہے۔ اپنے چھوٹے بھائیوں اور بچوں کو یہ فن سکھا کر محفوظ تو بنا رہا ہیں، مگر فن شناس کوئی نہیں ہے‘۔
مٹی سے بنے والا برتن کئی مراحل سے گزر کر ایک مکمل شکل اختیا ر کرتا ہے سب سے پہلے مٹی کو چھان کر باریک مٹی کو جمع کیا جاتا ہیں۔ پھر تھوڑی سی ریت مٹی میں ملا کر اْسے انتہائی نفاست کے ساتھ گوندھا جاتا ہے۔
کچھ دیر چھوڑ کر اس گوندھی ہوئی مٹی کو چکی پر ڈالا جاتا ہیں اور پھر کمار کی انگیاں مٹی کو دھیرے دھیرے برتن کی شکل میں ڈھالتی ہیں۔
برتنوں کو بنانے کے بعد کچھ وقت کے لئے دھوپ میں رکھا جاتا ہے اور اس کے بعد آگ کی بھٹی کے حوالے کئے جاتے ہیں۔ ایک دن تک آگ میں پکنے کے بعد یہ برتن اور دیگر مختلف اشیاء اپنے بنانے والے کو داد دیتے نظر آنے لگتے ہیں۔
ہم نیوز سے بات کرتے ہوئے کمہار نے بتایا کہ ظروف سازی کے کاروبار میں کمی ہمارے معیشت پر بھی بر ے اثرات مرتب کررہی ہیں۔
اس کام سے وابستہ افراد مایوسی کا شکار ہیں۔ کہتے ہیں کہ آخری امید حکومتی سر پرستی ہے۔ حکومت اگر اس شعبے کو توجہ دے تو ہنرمندوں کے مسائل حل ہونے کے ساتھ ساتھ اس یہ قدیم فن کو بھی زندہ رکھا جاسکتا ہیں۔