نقیب اللہ محسود کیس: عدالت نےراؤانوارکو2مئی تک عدالتی ریمانڈ پرجیل بھیج دیا

گواہوں نے راؤ انوار،دیگر ملزمان کے زیر استعمال فون نمبرز کی تصدیق کردی

فوٹو: فائل


کراچی: نقیب اللہ محسود قتل کیس میں انسداد دہشت گردی عدالت نے سابق ایس ایس پی ملیرراؤانوا کو2مئی تک عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

سابق ایس ایس ملیر کو سخت حفاظتی اقدامات میں کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔

راؤ انوارکو پولیس کی بکتر بند گاڑی میں عدالت پہنچایا گیا۔

انسداد دہشت گردی عدالت نے راؤانواراور ملزم شکیل کو عدالتی ریمانڈ پر 2مئی تک جیل بھیج دیا، جبکہ ڈی ایس پی قمر سمیت 10ملزمان کے عدالتی ریمانڈ میں توسیع کردی۔

گزشتہ ماہ انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ محسود کو ماورائے عدالت قتل کرنے  کےالزام میں راؤ انوار کو 30 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا تھا۔

دریں اثنا سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے نقیب قتل کیس کی تحقیق کیلئے بنائی گئی مشترکا تحقیقاتی ٹیم(جے آئی ٹی)نے اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کی۔

تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار جرم میں براہ راست ملوث نہیں۔

رپورٹ کے مطابق معطل پولیس افسر اعانت جرم کے مرتکب ہوئے ہیں لیکن جرم میں براہ راست ملوث نہیں ہیں۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نقیب کے ساتھ پکڑے گئے دو افراد نے بھی رائوانوار کی آوازکو پہچانا ہے۔

تفصیلات کے مطابق راؤ انوار کے فون ریکارڈ سے پتا چلا کہ مبینہ پولیس مقابلے کے وقت وہ علاقے کےاطراف میں موجود تھے۔

تحقیقاتی ٹیم نے راؤ انوار سے 6 سے زائد مرتبہ ملاقاتیں کرکے تحقیقات مکمل کیں۔

تحقیقاتی ٹیم کے ارکان نے 10 سےزائد میٹنگز کر کے یہ رپورٹ مرتب کی ہے۔

نقیب اللہ قتل کیس

نقیب اللہ کو رواں سال 13 جنوری کو مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کردیا گیا تھا۔ نسیم اللہ عرف نقیب اللہ کی لاش کی شناخت 17 جنوری کو ہوئی تھی۔ مبینہ مقابلے کے بعد راؤ انوار نے نقیب کو تحریک طالبان کا کمانڈر ظاہر کیا تھا۔

نقیب کی ہلاکت کے بعد سوشل میڈیا میں قتل کے خلاف بہت زیادہ شور مچا اور اسے ماورائے عدالت قتل قرار دیا گیا۔

جس پر آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی جانب سے ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثنا اللہ عباسی کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی بنائی گئی۔

مذکور کمیٹی نے تحقیقات کے بعد نقیب اللہ محسود کو بے قصور قرار دیااوران کی ہلاکت کو ماورائے عدالت قتل  قرار دیا۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ پولیس مقابلہ جعلی تھا، نقیب اللہ کو پولیس نے دو دوستوں کے ہمراہ تین جنوری کو اٹھایا اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ نقیب اللہ کے دوستوں قاسم اور علی کو چھ جنوری کو چھوڑ دیا گیا۔

کمیٹی کے سامنے نقیب کا پیش کیا گیا ریکارڈ بھی جعلی نکلا۔

کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں 20 جنوری کو راؤ انوار اور ان کی ٹیم کو معطل کردیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ نے بھی راؤ انوار کے قتل کا ازخود نوٹس لے لیا جس کے بعد راؤانوار ان کے ٹیم کے ارکان روپوش ہو گئے اور بار بار سپریم کورٹ کی طلبی کے باوجود عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔

دو ماہ تک مفرور رہنے کے بعد 21 مارچ کو  سپریم کورٹ میں پیش ہونے والے راؤ انوار کو عدالتی حکم پر سپریم کورٹ کے احاطے سے گرفتار کر کے کراچی پہنچایاگیا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے راؤ انوار کی گرفتاری کا حکم دیتے ہوئے کراچی پولیس کے افسر آفتاب پٹھان کی سربراہی میں پانچ رکنی جے آئی ٹی قائم کی تھی۔


متعلقہ خبریں