نیب ترمیمی آرڈیننس کا اطلاق1985 سے ہوگا، احتساب عدالت

ہاؤسنگ سوسائٹی فراڈ کیس، پلی بارگین کی درخواست منظور

فائل فوٹو


لاہور: احتساب عدالت نے نیب ترمیمی آرڈیننس2019  کا اطلاق 1985 سے کرنے کا حکم دے دیا ہے جس کا مطلب ہے کہ 40 سال پرانے مقدمات میں نامزد ملزمان بھی اس سے مستفید ہو سکیں گے۔

احتساب عدالت کے جج چوہدری امجد نزیر نے اپنے فیصلے میں نیب ترمیمی آرڈیننس کے اطلاق سے متعلق نوٹ میں لکھا کہ اختیارات سے تجاوز میں جب تک مالی فائدہ یا اثاثوں میں اضافہ نا ہو جرم تصورنہیں ہوگا۔

خیال رہے کہ نیب کے ترمیمی آرڈیننس سے سب سے پہلے مستفید ہونے والے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف ہیں۔ احتساب عدالت نے نیب ترمیمی آرڈیننس کے تحت گزشتہ روز 8 ملزمان کو بری کیا اور آنے والے چند دنوں میں بھی سینکڑوں افراد مستفید ہوں گے۔

اس آرڈیننس کے آنے سے لاہور کی احتساب عدالت سے 30 سے زائد ریفرنس ٹرانسفر ہو چکے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان، سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک، مشتاق غنی، علیم خان اور سبطین خان بھی اس آرڈیننس سے  مستفید ہو سکتے ہیں۔

اطلاعات ہیں کہ مستقبل میں نواز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز، شہباز شریف، خواجہ سعد رفیق، خواجہ سلمان رفیق، فواد حسن فواد، احد خان چیمہ، آصف ہاشمی، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال اور چوہدری برادران سمیت متعدد افراد مستفید ہو سکتے ہیں۔

نیب آرڈیننس2019 کیا ہے؟

آرڈیننس کے مطابق پراسیکیوٹر جنرل کی تعیناتی میں چیئرمین نیب کا کردار ختم کردیا گیا، نیب انکوائری اور تحقیقات کے مراحل میں عوامی سطح پر کوئی بیان نہیں دے سکتا۔

نیب اب 90 روز تک کسی مشتبہ شخص کو تحویل میں نہیں لے سکتا، اس مدت کو کم کرکے 14 روز کردیا گیا ہے۔ ترمیم کے بعد ماضی کے برعکس تمام ثبوت فراہم کرنا ملزم کی بجائے پروسیکیوشن کی ذمہ داری ہوگی۔ نیب کو 60 ماہ میں انکوائری مکمل کرنا ہوگی اور ایک بار کارروائی کے بعد کسی شکایت پر دوبارہ انکوائری نہیں ہوگی۔

چیئرمین نیب، کابینہ اور اسٹیبلشمنٹ سیکریٹریز،  چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو، سیکیورٹز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان، ڈویژن برائے قانون و انصاف کے نمائندے پر مشتمل 6 رکنی اسکروٹنی کمیٹی کی اجازت کے بغیر نیب بیوروکریٹس اور سرکاری ملازمین کیخلاف قانونی چارہ جوئی یا انہیں گرفتار نہیں کر سکے گا۔

اسکروٹنی کمیٹی کی پیشگی منظوری کے بغیر نیب کسی پبلک آفس ہولڈر کی جائیداد ضبط نہیں کر سکے گا اور متعلقہ حکام یا محکموں کو انکوائریوں اور تحقیقات کے متعلق آگاہ کیا جائے گا۔

علاوازیں مقدمات کو متعلقہ احتساب عدالتوں سے ٹیکس، لیویز اور محصولات کے متعلقہ قوانین کے تحت نمٹنے والی کرمنل کورٹس میں منتقل کیا جائے گا۔


متعلقہ خبریں