مودی حکومت کا قیدی آصف سلطان امریکہ کے پریس فریڈم ایوارڈ کے لیے نامزد

مودی حکومت کا قیدی آصف سلطان امریکہ کے پریس فریڈم ایوارڈ کے لیے نامزد

سری نگر: بھارت کی انتہا پسند حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے نامزد وزیراعظم نریندر مودی حکومت کی جانب سے غیر قانونی قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے والے کشمیری صحافی آصف سلطان کو امریکن نیشنل پریس کلب کی جانب سے ’پریس فریڈم ایوارڈ‘ دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔

38 سالہ آصف سلطان اپنی صحافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے باز نہ آنے کے جرم کی پاداش میں گزشتہ ایک سال سے پابند سلاسل ہیں۔ امریکہ کے نیشنل پریس کلب کی جانب سے گزشتہ روز اعلان کیا گیا ہے کہ امسال ان کا سالانہ ’John Aubuchon Press Freedom Award‘ ایوارڈ کشمیری صحافی آصف سلطان کو دیا جائے گا۔

کشمیر میں کرفیو کا 21 واں دن: مودی حکومت پہ کشمیریوں کی ہیبت طاری

آصف سلطان کو گزشتہ سال 27/28 اگست کو جھوٹے الزامات کے تحت قابض بھارتی حکومت کی ایما پر بھارتی پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ ان کی گرفتاری کے وقت کشمیری صحافیوں نے عائد کردہ تمام الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے انہیں جھوٹا اور لغو قرار دیا تھا۔

کشمیری صحافیوں نے ان کی گرفتاری پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ آصف سلطان کی گرفتاری پوری صحافتی برادری کے لیے ایک دھمکی ہے کہ اگر وہ سچ لکھنا نہیں چھوڑیں گے تو انہیں ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

آصف سلطان کے والدین اس وقت مقبوضہ سری نگر میں مقیم ہیں۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ان کے والد محمد سلطان کا کہنا ہے کہ انہیں کسی نے بتایا ہے کہ ان کے بیٹے کو ایک اعلیٰ اعزاز کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ ان کے صاحبزادے کو اعزاز دینے کا فیصلہ کس نے اور کیوں کیا ؟ لیکن اس پر وہ اعزاز دینے والوں کے تہہ دل سے مشکور ضرور ہیں۔

سید علی گیلانی نے پاکستان، پاکستانی عوام اور مسلم امہ سے مدد کی اپیل کردی

ریٹائرڈ سرکاری ملازم محمد سلطان کے مطابق انہیں نہیں معلوم ہے کہ اس اعزاز کے بعد آصف سلطان کے خلاف درج مقدمہ میں بھی کوئی مدد ملے گی یا نہیں ؟ لیکن بہرحال وہ شکر گزار ضرور ہیں۔

آصف سلطان کی گرفتاری ان کی رپورٹنگ کی وجہ سے عمل میں آئی تھی کیونکہ انہوں نے بھارتی حکام کی جانب سے کی جانے والی تنبیہ کے باوجود غیر جانبدارانہ رپورٹنگ ترک کرنے سے انکار کردیا تھا۔

امریکہ کے معتبر ادارے کی جانب سے ان کی اعلیٰ اعزاز کے لیے نامزدگی نے ان کی سچائی اور صداقت پہ ایک مرتبہ پھر مہر ثبت کردی ہے۔


متعلقہ خبریں