مودی اقدام جموں و کشمیر تک محدود رہے گا؟بھارتی قلمکار نے بتادیا

مودی اقدام جموں و کمشیر تک محدود رہے گا؟بھارتی قلمکار نے بتادیا

فائل فوٹو


اسلام آباد: عوامی امنگیں ہماری جمہوریت اورآئین کا بنیادی عنصر ہے لیکن پانچ اگست 2019 کو جب صدارتی فرمان اور جموں و کشمیر کی تنظیم نو کے مسودہ قانون کو جس طرح سے پارلیمان پر ’ٹھونسا‘ گیا وہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں اور ہمارے دستور کی کئی شقوں کی صریحاً خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ حکومت کا یہ فیصلہ ریاست کے لوگوں پہ سیکیورٹی سے لے کر روزگار تک پر وسیع اور گہرے اثرات مرتب کرے گا مگر فیصلہ کرتے وقت ان کی مرضی نہیں پوچھی گئی بلکہ وادی میں مزید ہزاروں فوجیوں کی ہنگامی طور پر تعیناتی کے ذریعے یہ پیغام دیا گیا کہ احتجاج کی جسارت نہ کی جائے۔

یہ بات بھارت کی ممتاز خاتون قلمکار پروفیسر ڈاکٹر رادھا کمار نے برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے لیے لکھے گئے اپنے ایک خصوصی مضمون میں کہی ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر رادھا کمارنے متعدد شہرہ آفاق کتب تحریر کی ہیں۔

انہوں نے لکھا ہے کہ معمول کے مطابق تو اتنی بڑی اور ہمہ جہتی آئینی ترمیم کے لیے مروجہ جمہوری طریقہ کار اپنایا جانا چاہیے تھا۔ مسودہ مرکز اور ریاست میں منتخب حکومت کی مشاورت سے تیار کیا جانا چاہیے تھا اور پھر اسے مرکزی و ریاستی اسمبلیوں میں پیش کیا جانا چاہیے تھا۔ قانون کے مطابق اس پر مقررہ وقت تک بحث ہونی چاہیے تھی تاکہ عوامی نمائندے لوگوں کی ترجمانی کرتے اور عوام پر پڑنے والے مضر اثرات کا جائزہ لیتے لیکن اس سلسلے میں ہر اصول بالائے طاق رکھ دیا گیا۔

مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کا تیسرا دن، کاروبارِ زندگی مفلوج

پروفیسر ڈاکٹر رادھا کمار نے دعویٰ کیا ہے کہ صدارتی فرمان نے آئین کی شق 370 کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا ہے کیونکہ اس میں کہا گیا تھا کہ کوئی بھی ترمیم ریاست کی آئین ساز اسمبلی ہی کرنے کی مجاز ہے اور اسے چھ سال قبل تحلیل کردیا گیا تھا۔

انہوں نے لکھا ہے کہ صدر نے حیرت انگیز طور پرصدارتی فرمان میں حکم دیا کہ اس معاملے کو قانون ساز اسمبلی میں لے جایا جائے جب کہ ریاست میں صدر راج ہونے کی وجہ سے قانون ساز اسمبلی بھی نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ حکمراں جماعت کے ترجمان کے مطابق صدارتی حکم کے تحت گورنر اسمبلی کا نعم البدل ہو سکتا ہے لیکن قانون سازوں کا انتخاب تو لوگ کرتے ہیں جب کہ گورنر کا نہیں۔ گورنر کا تقرر تو صدر کرتے ہیں اور وہ بھی کشمیری نہیں ہیں۔

گورنر نہ تو جموں و کشمیر کے لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے اور نہ کر سکتا ہے۔ انہوں نے مؤقف اپنایا ہے کہ اسی طرح مرکزی حکومت نے جوں و کشمیر کی تنظیم نو سے متعلق مسودہ قانون کا نوٹس نہیں دیا۔ اسے پارلیمان میں بحث کے لیے نہیں رکھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایوانِ زیریں سے منظوری سے قبل ایوانِ بالا نے اس کی منظوری دی مگر بہت ہی مختصر بحث کے بعد دے دی جو اس جمہوری اصول سے روگردانی کے مترادف ہے جس کے تحت کسی بھی مسودہ قانون کے نامزد حکام کے ہاتھوں نفاذ سے پہلے منتخب نمائندوں سے منظوری لازمی ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر رادھا کمار نے لکھا ہے کہ مسودہ قانون پیس کرنے کے لیے وزیر داخلہ کے جواز پر بھی اعتراضات اٹھتے ہیں کیونکہ انھوں نے کہا کہ آرٹیکل 370 کا جموں و کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کے انسٹرومنٹ آف ایکسیشن یعنی معاہدۂ الحاق سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن آرٹیکل 370 اس معاہدے کی شرائط کو مثلاً یہ کہ دفاع، خارجہ اور مواصلات کے سوا تمام فیصلے ریاستی حکومت کرے گی، کو بھارتی آئین کا حصہ بناتا ہے۔

مقبوضہ کشمیر: پاکستان نے سات رکنی کمیٹی تشکیل دے دی

انہوں نے استفسار کیا ہے کہ اگر ان شرائط کو منسوخ کر دیا جائے تو کیا اس سے الحاق پر اعتراضات کا ایک نیا سلسلہ شروع نہیں ہوگا؟

بھارتی ذرائع ابلاغ کے کردار پر نکتہ چینی کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر رادھا کمار نے کہا ہے کہ میڈیا پر زیادہ تر اینکرز نے درپیش نکات کو یہ کہہ کر نظر انداز کر دیا کہ دونوں فیصلے بھارت کو اس قابل بنا دیں گے کہ وہ 70 سال پر محیط مسئلہ کا خاتمہ کردے، وادی میں نئے سیکیورٹی مسائل سے نمٹ سکے اور معیشت کو بہتربنا سکے۔

انہوں نے لکھا ہے کہ جہاں تک سیکیورٹی کا تعلق ہے تو حکومت کا اندرونی اور سرحد پار خطرات کے بارے میں موقف درست ہو سکتا ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ مجھے نہیں معلوم اور نہ ہی اس بارے میں کوئی تفصیل دی گئی ہے کہ حکومت نے کس خراب صورتحال سے نمٹنے کے لیے انتظامات کیے ہیں؟

۔۔۔ لیکن اب تک جو شواہد سامنے موجود ہیں ان کے مطابق ڈائریکٹ رول یا براہ راست حکومت سیکیورٹی کو یقینی نہیں بناتے ہیں بلکہ اس سے ریاست کے گیارہ میں سے آٹھ مسلم اکثریتی اضلاع میں غم و غصہ بڑھے گا اور خدا نہ کرے مگر خدشہ ہے کہ اس سے شدت پسندی کی مدد و حمایت میں اضافہ ہوگا۔

انہوں نے کہا ہے کہ جہاں تک ریاست کی ترقی اور سرمایہ کاری کی بات ہے تو ہماری معیشت پہلے ہی مشکل میں ہے اور سرمایہ کار پرامن ریاستوں میں بھی سرمایہ لگانے پر تیار نہیں ہیں چہ جائیکہ جموں و کشمیر جیسی شورش زدہ ریاست میں وہ سرمایہ کاری پر آمادہ ہوں گے۔

مقبوضہ کشمیر سے متعلق مودی سرکار کا فیصلہ اور عالمی میڈیا

پروفیسر ڈاکٹر رادھا کمار کے مطابق تاریخ شاہد ہے کہ اس سے پہلے کی حکومتوں نے آئین کی شق 370 کو ’کھوکھلا‘ کرنے کی جتنی بھی کوششیں کیں اور وہ حالیہ اقدام کے مقابلے میں کہیں کم ’جرات مندانہ‘ تھیں مگر انھوں نے بھی مرکز اور ریاست کے تعلق پر بتدریج دباؤ ڈالا  اور نتیجتاً پڑنے والا دباؤ 1990 کی شورش پر منتج ہوا جسے کمزور کرنے میں 15 سال لگ گئے۔

انہوں نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ممکن ہے کہ ہماری افواج تھوڑے عرصے تک کشمیریوں کے غیض و غصب کو کچھ وقت تک دبا سکیں لیکن آخر کب تک؟ اور پھر ہم اپنے فوجیوں کو کب تک وہاں رکھ سکیں گے؟

تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ وہ بتاتی ہے کہ 2000 سے 2010 تک کے عشرے میں کشمیریوں میں جو نئی امید پیدا ہوئی اس کا سبب علیحدگی پسندوں سے مذاکرات، ریاستی حکومت کو زیادہ اختیارات کی تفویض، انتظام و انصراف میں بہتری اور سیکیورٹی حصار کی ایسی تنظیم نو کہ لوگوں کو روز مرہ معمولات کی ادائیگی میں کم سے کم پریشانی ہو جیسے اقدامات شامل تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ میڈیا اور ملک میں عوامی حمایت کو مد نظر رکھتے ہوئے لگتا ہے کہ ہم نے جان بوجھ کر ان حقائق کو پروپیگنڈے سے بدل لیا ہے اور ان لوگوں کا ہمیں کوئی احساس ہی نہیں جو اس سے براہ راست متاثر ہوں گے یعنی ریاست کے رہنے والے۔

پروفیسر ڈاکٹر رادھا کمار کے مطابق ایسی ہی قابل افسوس حقیقت یہ بھی ہے کہ لگتا ہے کہ ہم نے تمام بنیادی جمہوری اصولوں اور معیارات کو بھی پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ انہوں نے استفسار کیا ہے کہ کیا ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ عمل صرف جموں و کشمیر تک محدود رہے گا؟ تو یقیناً نہیں رہے گا۔

ممتاز قلمکار اور متعدد کتب کی مصنفہ نے اپنے مضمون میں واضح طور پر کہا ہے کہ مجھے خوشی ہوگی کہ اگر کوئی مجھے قائل کر دے کہ میں غلط ہوں لیکن اب تک حکومت کے کسی ترجمان نے درج بالا سوالات کے ٹھوس جوابات نہیں دیے ہیں۔


متعلقہ خبریں