شہر قائد کےمسائل:سندھ حکومت اور سیاسی جماعتوں کی مشاورتی کانفرنس

سندھ میں کورونا وائرس سے 27 افراد صحتیاب ہو چکے، وزیر اعلیٰ سندھ

کراچی کے مسائل کا حل نکالنے کے لئے وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ  کی صدارت میں سیاسی جماعتیں اور متعلقہ اداروں کے حکام  ایک کانفرنس میں اکھٹے ہوئے ہیں ۔وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کراچی میں پانی کے مسائل کے حل کے لیے کمیٹی قائم کردی۔

شہر قائد کراچی میں ہونے والی اس اہم کانفرنس کا ایجنڈا کراچی کے مسائل اور ان کا حل تھا۔

ں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے پانی کے مسائل کے حل کے لیے ایک کمیٹی بنا دی جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کا ایک نمائندہ شامل ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ یہ کمیٹی ہر 15 دن میں اجلاس منعقد کرے گی اور پانی کی چوری، تقسیم اور لیکیج کی نگرانی کرے گی۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ اکتوبر اور نومبر میں 70 ایم جی ڈی سسٹم میں شامل ہوجائے گا، 65 ایم جی ڈی کا فنی مسئلہ ہے،انہوں نے کہا کہ اس اسکیم پر نظرثانی کر رہے ہیں، فنی مسئلہ حل کرکے مکمل کریں گے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ کے فور کے بغیر مسئلہ حل نہیں ہوگا، جیسے ہی نیسپاک کی رپورٹ آئے گی آپ سب سے پھر اجلاس کر کے کام کو آگے بڑھائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ توسیع پر کام شروع کرنے کے لیے واٹر بورڈ ایک مرتبہ اس پر نظرثانی کرلے، ہم اس منصوبے کو دو حصوں میں تقسیم کر لیتے ہیں۔

وزیراعلی مراد علی شاہ نے خطاب میں کہا کہ جب وہ  وزیر خزانہ تھے اس وقت ا نہوں  نے ایک اجلاس میں پوچھا کہ پانی کی فراہمی کے لیے  روٹ کس نے بنایا ہے ؟اجلاس میں سب نے کہاکہ مشکل روٹ کا انتخاب کیا گیا ہے۔  مجھے کہا کہ آپ اس پر اعتراض نہ کریں اس سے پراجیکٹ میں مزید تاخیر ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ جب وہ وزیر اعلی بنے تو اس پراجیکٹ پر سندھ حکومت نے 21 بلین روپے خود دینے کا وعدہ کیا۔ عام انتخابات کے بعد جیسے ہم واپس آئے تو کچھ مسائل ہوئے۔ ہمیں ماہرین نے کہا کہ 12.9 بلین روپے کی جو لاگت کی ہے وہ ٹھیک نہیں ،ہمیں 20ارب اضافی درکارہیں ،ہم نے کہا ہم دینگے۔

سید مراد علی شاہ نے کہا  پھر کہا گیاکہ جو چینل 260 ایم جی ڈی کا بنایا جا رہا ہے اب پہاڑی کو بلاسٹ کر کے بنایا جائیگا۔ ہم نے نیسپاک کو تھرڈ پارٹی ڈیزائین ویریفکیشن کیلئے کام دیا تاکہ ایک مرتبہ ٹھیک کر کے ہی منصوبہ شروع کریں، پراجیکٹ میں تاخیر اسی وجہ سے ہورہی ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ  نے عزم ظاہر کیا کہ آج مسائل کا حل تلاش کر کے اٹھیں گے۔

کراچی شہر کو پانی کی فراہمی کے لیے مجوزہ منصوبے  کے فور کے پراجیکٹ ڈائریکٹر اسد ضامن نے  کہا کہ کے فور کا روٹ 2007 میں منتخب کیا گیا۔

اس روٹ کی سلیکشن کی بنیادوں پر فزیبلٹی بنائی گئی۔  پی سی 1260 ایم جی ڈی 2012 میں دی ڈی ڈبلیو پی نے ریشنلائیز کیا۔  5 بلین روپے زمین کے معاوضہ کیلئے رکھے گئے،

انہوں نے کہا کہ  25 بلین روپے 2007 کی فزیبلٹی تھی  2014 میں بھی 25 بلین روپے ہی رکھے گئے جس سے کسی صورت میں بھی منصوبہ مکمل ہونا ممکن نہیں تھا۔

اسد ضامن نے کہا کہ   کے فور پروجیکٹ کو بجلی دینا ضروری ہوگا، 30 میگا واٹ کو بجلی چاہئے تاکہ پانی پمپ کیا جائے، 260 ملین گیلن روزانہ انڈس ریور سسٹم اَتھارِٹی ( ارسا ) سے ڈمانڈ کی ہے کہ  وہ کراچی کیلئے دیے جائیں۔  سندھ حکومت نے 260  ملین گیلن اپنے ذرائع سے پانی دینے کی حامی بھری ہے۔

انہوں نے کہا کہ  کینجھر سے دھابیجی اور پھردھابیجی سے  کراچی کو پانی دیا جائیگا۔ یہ منصوبہ 2007 کے حساب سے 2014 میں 25 بلین روپے میں منظور ہوا، اب یہ ممکن نہیں کہ ان فنڈز سے یہ منصوبہ مکمل ہوسکے۔

اسد ضامن نے کہا  2015 میں اس کے ڈزائن مکمل ہوئے، 2016 میں ایف ڈبلیو او کو کانٹریکٹ ایوارڈ دیا گیا۔  ایف ڈبلیو او نے پاور سپلائی کے بغیر 42 بلین روپے کی کاسٹ دی۔  15 بلین روپے کا سول ورک دیا جس میں کافی تعمیری کام شامل نہیں تھے۔

سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ یہ مسائل آبادی بڑھنے کے ساتھ پیدا ہوئے۔ واٹر بورڈ کی گورننس شفاف نہیں۔ ادارے کو مسائل کا حل بتانا چاہیے۔ ری سائیکلنگ سے کتنا پانی پیدا کیا جاسکتا ہے، اس کا بھی تعین نہیں کیا گیا۔

ایم کیو ایم کے رہنما خواجہ اظہار کا کہنا تھا کہ مسائل کا حل وزیراعلیٰ سندھ اور محکمہ بلدیات کے پاس ہے۔ پانی کی چوری کو بھی روکنا ہوگا۔ واٹر بورڈ پانی چوروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائے۔

میئر کراچی وسیم اختر نے کہا کہ وقت نکلتا جارہا ہے۔ کے فور پر کام رکا ہوا ہے۔ پانی کی فراہمی کے لئے انفرااسٹرکچر کی بھی ضرورت ہے۔ سندھ حکومت اس کے لئے فنڈر فراہم کرے۔میئر کراچی نے کہا کہ واٹر بورڈ اپنے آفس کو ٹھیک کرے۔ ادارے میں بیٹھے پرانے پرانے لوگ ڈلیور نہیں کررہے۔

یہ بھی پڑھیے: پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پانی کا بحران

اے این پی کے رہنما شاہی  سید نے کہا کہ میں تمام جماعتوں کو کراچی پر رحم کی اپیل کرتا ہوں،ہم پاکستانی ہیں اور سندھ میں رہنے والے کراچی کے شہری ہیں۔ پانی شہر کا مسئلہ ہے، اس پر سیاست نہیں ہونی چاہئے۔ پانی کے نقصانات کو ختم کرنا ہے جس سے پانی ملنا شروع ہوجائیگا۔

انہوں نے کہا کہ  پانی کو بچانا عبادت کے برابر ہے، لیکن ہم ضائع کرتے ہیں، کراچی شہر نے جتنا خون اور بربریت دیکھی ہے ، اب اس پانی کی سیاسی کو ختم کریں۔


متعلقہ خبریں