’سیاسی جماعتوں میں بات چیت کے عمل کا خاتمہ ملک کی بدقسمتی ہے‘



اسلام آباد: معروف سرمایہ کار عارف حبیب کا کہنا ہے کہ ملک کی سیاسی جماعتوں کے درمیان بات چیت بھی نہیں رہتی جس سے ملک کا نقصان ہوتا ہے۔

پروگرام ایجنڈا پاکستان میں میزبان عامر ضیاء سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک کی بدقسمتی ہے کہ سابق وزیرخزانہ نئے وزیرخزانہ سے ملاقات ہی نہیں کرتا۔ عوام کو دباؤ ڈالنا چاہیے کہ تمام سیاسی جماعتیں اہم معاملات پر متفق ہوں کیونکہ ایسا نہ ہونے سے ملک کا نقصان ہورہا ہے۔

عارف حبیب نے کہا کہ بجٹ پاس ہونا ایک اہم مرحلہ تھا، اس سے مارکیٹ میں اعتماد آئے گا۔ مارکیٹ میں موجود تشویش کو فوری طورپر دور کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امید ہے وزیراعظم کے دورہ امریکہ اور آئی ایم ایف سے باقاعدہ معاہدے سے معاملات بہتر ہونا شروع ہوجائیں گے، ایکسیچنچ ریٹ میں بھی استحکام آئے گا جس سے بیرون ملک سے بھی پیسے کی منتقلی شروع ہوجائے گی۔

عارف حبیب نے کہا کہ کرنسی کا استحکام بہت ضروری ہے، اسطرح روپے کی قدر گرنے کا فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہوگا کہ برآمدات بھی نہیں بڑھ رہی ہیں۔ جاری کھاتوں کا خسارہ جب تک قابو میں نہیں آئے گا، ملک میں ڈالروں کی کمی ہوتی رہے گی۔

عارف حبیب کا کہنا تھا کہ زراعت جیسے کئی سیکٹرز ہیں جن کی ٹیکس میں شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سول اور فوجی قیادت کا ملکی معیشت کی بہتری کے لیے ایک صفحے پر ہونا خوش آئند ہے۔ آرمی چیف سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ملک اکیلے ترقی نہیں کرتے بلکہ خطے مل کر ترقی کرتے ہیں۔ اپنے مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔

عارف حبیب نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بہتری آرہی ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، روس اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری نظر آرہی ہے جس سے بھارت پر دباؤ آئے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جب بھی انتخابات ہوتے ہیں اسکی بہت زیادہ قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ بدعنوانی کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ معاملات کو درست کریں۔ حکومت کااعتماد بھی تبھی بڑھے گا جب موجودہ حالات میں حکومت کو کرپشن کم ہوتی نظر آئے گی۔

صدرلاہورچیمبر آف کامرس الماس حیدر نے کہا کہ گزشتہ دس ماہ میں جس طرح معاشی معاملات چلائے گئے اس سے مارکیٹ میں ایک منفی تاثر پیدا ہوگیا ہے۔ اگر ملک میں پیداوار ہو گی تو ٹیکس اکٹھا ہوگا اور تبھی نوکریاں پیدا ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ غیریقینی صورتحال کے خاتمے تک اعتماد بحال نہیں ہوگا، بجٹ کے فائنل ہونے سے ہر چیز واضح ہوجاتی ہے۔

ماہر معاشیات عابد قیوم سہلری نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے یا نہ جانے کا فیصلہ نہ کرسکنے کے باعث معیشت کو نقصان ہوا۔ بجٹ میں ان ڈائریکٹ ٹیکس دو فیصد بڑھے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت ان لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لے جاتی ہیں جو اس میں نہیں ہیں تو اپنا ہدف حاصل کیا جاسکتا ہے۔ایف بی آر کے اندراصلاحات اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھا لیا تو حکومت اپنے اہداف حاصل کرسکتی ہے۔

عابد قیوم سہلری نے کہا کہ آئی ایم ایف کے سخت پروگرام کی طرف جارہے ہیں کیونکہ سابق حکومت میں 16 بار رعایت ملی لیکن اب ایک بار بھی ملنا مشکل ہے۔

انہوں نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں معیشت سے متعلق منقعد ہونے والے سیمینار کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف نے کہا کہ کوئی بھی ملک تب تک دفاعی طاقت نہیں بن سکتا جب تک وہ معاشی طاقت نہ ہو۔ بیرون ملک سے جا کر پیسے مانگنا کسی بھی طرح اچھا عمل نہیں ہے۔

عابد قیوم سہلری کا کہنا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ مشکل معاشی فیصلے لینے ہیں اور اس میں فوج نے پہل کی ہے۔ کینسر کا علاج ایک ہی دن میں نہیں ہوتا بلکہ آہستہ آہستہ یہ کام ہوسکتا ہے۔ ٹیکس آمدنی بڑھانے کی بھی بات ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا خطے میں کردار بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے، بھارت کے ساتھ بھی اسی لیے اچھے تعلقات ہوں گے۔بھارت میں الیکشن کی وجہ سے پاکستان کی مخالفت کی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود زیادہ عرصے تک خطے میں ہونے والی تجارتی سرگرمیوں سے لاتعلق نہیں رہ سکتا ہے۔

عابد قیوم سہلری نے کہا کہ بھارت اور چین کی سرحد اور سیاسی اختلافات ہمارے سے بہت بڑے ہیں لیکن اس کے باوجود تجارت کا حجم اربوں ڈالر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبوں کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے حکومت کو سیاسی درجہ حرارت نیچے لانا ہوگا۔

میزبان عامر ضیاء نے کہا کہ اپوزیشن کی بھرپور مخالفت کے باوجود حکومت کا بجٹ پاس کرالینا کامیابی ہے لیکن اصل امتحان بجٹ میں رکھے گئے اہداف کوحاصل کرنا ہے۔ انہوں نے پروگرام کے آخر میں کہا کہ ملک میں معاشی سرگرمیوں کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ احتساب کا شور کم کرکے حقیقی احتساب کیا جائے۔


متعلقہ خبریں