کراچی :دارالصحت اسپتال کے اعلی عہدیداران نے آج کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاہے کہ پاکستان میں سالانہ اڑھائی لاکھ لوگ میڈیکل ایررز یعنی غلطیوں کی وجہ سے مرتے ہیں اس میں جان بوجھ کا عنصر نہیں آتا۔ اس طرح کے واقعات کو مرڈر نہ کہا جائے۔ جب انسان کام کرتا ہے تو اس میں غلطی کا عنصر آتا ہے۔ دارالصحت اسپتال سے سینکڑوں لوگوں کا روزگار جڑا ہے۔قانون کے مطابق کارروائی کی جائے عملے کو ہراساں نہ کیا جائے۔
پریس کانفرنس میں ڈاکٹر شیریں قاسم ، پروفیسر نوید راشد قریشی، پروفیسر راشد نسیم خان اور فوکل پرسن دارالصحت پروفیسر عبدالرشید شریک ہوئے۔
ڈاکٹر نوید راشد قریشی نے کہا ہم نے میڈیا کے ذریعے دیکھا دیگر اسپتالوں کے کیسز بھی سامنے آئے۔ عصمت کیس ہے اور تھر کے معاملے کو اجاگر کیا گیاہے۔
ڈاکٹر ز نے کہا کہ پاکستان میں سالانہ اڑھائی لاکھ لوگ علاج کے دوران غلطیوں کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ قانون کے مطابق اسپتال کے خلاف کارروائی کی جائے۔ملازمین بے روزگار ہوگئے تو یہ کہاں جائینگے؟اسٹاف کو ہراساں کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کورنگی اسپتال کے کیس پر ہم نے نہیں سنا کہ سندھ حکومت سے کسی نے استعفی دیا ہو؟پولیس محکمے سے غلطیاں ہوئیں وہاں کسی نے استعفی دیا؟دوسرا اسپتال گورنمنٹ نے ابھی تک کھڑا نہیں کیا۔ اگر جذبات کی روش پر فیصلے ہونگے تو ملک ترقی نہیں کرے گا۔
بچی کی موت رائیگاں نہ جائے اسمبلی میں قانون سازی کی جائے ۔ اسمبلی کیوں کوئی قانون نہیں لاتی؟
ہمارے دو پروفیسرز کو گرفتار کرکے تھانے میں تذلیل کی گئی حالانکہ ان پروفیسرز کی غلطی نہیں تھی۔ جو تحقیقات قانون کے دائرے میں ہے کریں ہمیں اعتراض نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ منفی پراپیگنڈے کی وجہ سے مریضوں کا ڈاکٹر پر اعتماد ختم ہوجائےگا۔ کئی شکایات آرہی ہیں مریض ڈاکٹر پر اور ڈاکٹر مریضوں پر بھروسہ نہیں کر پارہے۔
پروفیسر نوید راشد قریشی نھے کہا دارالصحت کئیر ٹیچنگ اسپتال ہے۔تمام سہولیات میسر ہیں وقت کے ساتھ اس میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔ 2017 سے 2018 میں ایک لاکھ سے زائد مریض دیکھے گئے اور 9 ہزار سالانہ داخل ہوتے ہیں۔ مریض اسی لئے دارالصحت اسپتال آتے ہیں کیونکہ وہ صحتیاب ہوتے ہیں۔
دارالصحت میں 1600 ملازمین ہیں جبکہ 400 سینڈرز اور سپلائرز ہیں۔ دارالصحت اسپتال سے سینکڑوں لوگوں کا روزگار جڑا ہے۔ سندھ ہیلتھ کئیر کمیشن نے 2018 میں ایڈ دیا جس میں کہا کہ اسپتالوں کے پاس لائسنس ہونا ضروری ہے،دارالصحت اسپتال کی رجسٹریشن سندھ ہیلتھ کئیر کمیشن نے کی۔
انہوں نے کہا کہ جس غلطی کی وجہ سے نشوا کی موت ہوئی ہمیں اس پرافسوس ہے۔6 اپریل کو نشوا اپنی جڑواں بہن کے ساتھ داخل ہوئی تھی۔نشوا کی سات تاریخ کو طبیعت بگڑی اتوار کو اسے آئی سی یو میں شفٹ کیا گیا۔ پیر کے دن نشوا کے والد نے سمری مانگی ہم نے فوری دی۔
انہوں نے کہا کہ ایگزیکیٹیو ڈائریکٹر شہزاد عالم نے استعفی دے دیا جو قبول کرلیا گیاہے۔ چیرمین نے دو ممبرز پر مشتمل کمیٹی بنائی ہے۔ بچی کےوالد نے سندھ ہیلتھ کئیر کمیشن کو شکایت درج کروائی۔
یہ بھی پڑھیے:نشوا کے والد کا دارالصحت کے چیئرمین کی گرفتاری کا مطالبہ
نشوا کا معاملہ، سندھ ہیلتھ کئیر کمیشن کا اسپتال کو پانچ لاکھ روپے جرمانہ
23 تاریخ کو دارالصحت کو پانچ کمپلائنس یقینی بنانے کا کہا جس پر ہم نے فوری عملدرآمد کیا۔او پی ڈیز اور مریض کے داخلے بند کردئیے گئے۔سندھ ہیلتھ کئیر کمیشن نے کہا کہ 90 فیصد عملہ غیر تربیت یافتہ تھااسپتال میں مختلف شعبے کے لوگ کام کرتے ہیں ان کے سرٹیفکیٹ میں رجسٹرڈ نہیں لکھا ہوتا۔اسپتال کی غلطی ہے کہ ٹرینڈ سٹاف کی الگ سے شناخت کے لیے رجسٹر نہیں بنایا گیا۔
انہوں نے کہا غیر تربیت یافتہ نرسز کو مریضوں کا علاج کرنے سے روک دیا ہے ۔ ایچ آر دوبارہ ملازمین کی چیکنگ کرے گا کہ کیسے انکو نوکری دی گئی اور کس بنیاد پر دی گئی۔