پیرس: فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ’اورنج ویسٹ موومنٹ‘ (زرد صدری تحریک) باقاعدہ پرتشدد ہوگئی ہے۔ پرتشدد مظاہرین نے معروف برانڈز کے اسٹورز سمیت مختلف دکانوں و بینک میں لوٹ مار کے بعد انہیں نذر آتش بھی کردیا ہے۔
عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق آتشزدگی کی لپیٹ میں رہائشی اپارٹمنٹس بھی آگئے لیکن خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ فائر سروس کے اہلکاروں نے بروقت جائے وقوعہ پہ پہنچ کر تمام رہائشیوں کو بحفاظت نکال لیا۔
فرانس میں جاری زرد صدری تحریک 18 ویں ہفتے میں داخل ہوچکی ہے۔
خبررساں ایجنسی کے مطابق مظاہرین نے عالمی شہرت یافتہ برانڈ ’بوس‘ کے اسٹور پر حملہ کیا اور ساتھ ہی معروف ’فوکیٹ‘ ریسٹورینٹ کا رخ کرلیا۔ پرتشدد مظاہرین نے دونوں کو شدید نقصان پہنچایا۔
پرتشدد مظاہرین نے جب ایک رہائشی اپارٹمنٹس میں قائم بینک کو نذرآتش کیا تو اس کے شعلوں نے پوری بلڈنگ کو لپیٹ میں لے لیا۔ اسی دوران اطلاع ملنے پر فائر سروس کے اہلکارجائے وقوعہ پر پہنچے اورانہوں نے رہائشیوں کو بحفاظت باہر نکالا اور آگ کو بجھایا۔
آتشزدگی کے باعث دو فائر فائٹرز سمیت گیارہ افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جنہیں طبی امداد دی گئی ہے۔
خبررساں ایجنسی کے مطابق زرد صدری تحریک میں اس وقت اچانک تیزی پیدا ہوئی جب گزشتہ روز صدر ایمونوئیل میکرون اپنی اہلیہ کے ہمراہ پہاڑی علاقے پائیرنیزپہنچے۔ انہوں نے اپنی آمد کے بعد ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں کہا تھا کہ وہ آرام کرنے کے لیے دو تین دن یہاں گزاریں گے۔
فرانس کے وزیر داخلہ کرسٹوفر کیسٹینر نے صورتحال پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر جاری کردہ ایک پیغام میں کہا ہے کہ پرتشدد مظاہرین اور آگ لگانے والے مظاہرین نہیں ہیں بلکہ مشکلات کھڑی کرنے والے قاتل ہیں۔
نومبر2018 میں زرد صدری تحریک فرانس میں شروع ہوئی تھی۔ اس تحریک نے پٹرولیم مصنوعات میں ہونے والی مہنگائی کے خلاف احتجاج کرنا تھا۔ لوگوں کی بڑی تعداد اس تحریک کی حامی تھی اور عملاً انہوں نے اس میں شرکت کی تھی۔
پولیس نے ہفتے کو احتجاج کرنے والے افراد پر آنسو گیس اور واٹر کینن کا بھی استعمال کیا جو جنگ کی یاد گار کے سامنے جمع ہونے کے لیے پیدل جارہے تھے۔
مظاہرین نے یکم دسمبر 2018 کو احتجاجی مظاہرے کے دوران اسے مکمل طور پر اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔
خبررساں ایجنسی کے مطابق سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر زرد صدری تحریک سے وابستہ افراد نے گزشتہ روز کہا تھا کہ ان کے حامی اٹلی، بیلجیم، ہالینڈ اورپولینڈ سے آرہے ہیں جو ان کا ساتھ دیں گے۔
خبررساں ادارے کے مطابق مظاہرین نے اپنے نعروں میں تسلسل کے ساتھ صدر میکرون کو نشانہ بنایا اور انہیں خبردار بھی کیا کہ وہ انہیں نکالنے کے لیے آرہے ہیں۔
پیرس کی پولیس کے حوالے سے عالمی خبررساں ایجنسی کا کہنا ہے کہ اب تک 44 مظاہرین کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔
زرد صدری تحریک کے مظاہرے کے دوران دسمبر2018 میں ایک بزرگ خاتون ہلاک ہوگئی تھیں اور کئی افراد زخمی ہوئے تھے۔ زخمیوں میں ایک ایسا شخص بھی تھا جو اپنے بازو سے محروم ہو گیا تھا۔
جنوری 2019 کے دوران کیے جانے والے ایک مظاہرے میں پرتشدد مظاہرین نے کوریج کرنے والے صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا تھا۔