اسلام آباد: گنے کے رس سے گڑ یا شکرکیسے تیار ہوتی ہے؟ رس سے شکر بننے کے کتنے مراحل ہیں؟ اور یہ کس صنعتی یونٹ میں پایہ تکمیل کو پہنچتی ہے؟
درج بالا سوالات کے جوابات کی کھوج میں سوشل میڈیا پر انتہائی متحرک قرار دیے جانے والے جرمنی کے سفیر مارٹن کوبلز جنوبی پنجاب میں شکر تیار کرنے والے شاکر نامی شخص کے پیداواری یونٹ پہنچ گئے۔
was ever wondering what’s the sugarcane processing & where does brown sugar comes from; so just stopped by in the middle of south punjab & had a look at ‘Shakar production’
so it starts in winters here..when framers harvest the field of sugarcane & make ‘Roh'(juice) from it (1/3) pic.twitter.com/kFoh2ePtzf— Martin Kobler (@KoblerinPAK) February 23, 2019
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر جرمنی کے سفیر نے اس حوالے سے اپنی کچھ تصاویر بھی شیئر کی ہیں جن میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ شکر کی تیاری کے مختلف مراحل انتہائی انہماک اور دلچسپی سے نہ صرف دیکھ رہے ہیں بلکہ ان سے لطف اندوز بھی ہورہے ہیں۔
(2/3) then they boil this Juice with ‘left over of sugarcane called: chura & add soda & powders etc to make it clean, until it becomes thick & ‘maiil’ separates. Then transfer it to another pot to let it cool down. afterwards they just hammer it & its ready to eat..very sweet? pic.twitter.com/KwuVGZntSq
— Martin Kobler (@KoblerinPAK) February 23, 2019
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جرمن سفیر کو اس چینی کی تیاری نہیں دیکھنی تھی جو شوگر ملز میں تیار کی جاتی ہے اور سفید رنگ کی ہوتی ہے۔
جرمن سفیر مارٹن کوبلز اس شکر کی تیاری کے مراحل سے آگاہی کے خواہش مند تھے جو دیسی اور روایتی طریقے سے ہمارے دیہاتوں اور گاؤں میں گنے کے رس سے تیار ہوتی ہے۔
مارٹن کوبلز نے شکر کی تیاری کے مراحل بیان کرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا کہ پہلے کسان گنے کی فصل کاٹتے ہیں جس کے بعد گنے سے رس (رو) نکالا جاتا ہے۔
Tried.. pic.twitter.com/kEGBQPEcdU
— Martin Kobler (@KoblerinPAK) February 23, 2019
جرمن سفیر کے مطابق دوسرے مرحلے میں نکالے جانے والے رس کو گنے کا چورا جلا کرپکاتے ہیں جس میں سوڈا اور پاؤڈر وغیرہ شامل کیا جاتا ہے تاکہ وہ گاڑھا ہو جائے اوراس کا میل وغیرہ صاف ہوجائے۔
مارٹن کوبلز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر بتایا کہ پکنے کے بعد اسے ٹھنڈا کرنے کے لئے ایک الگ لکڑی کے برتن میں منتقل کردیا جاتا ہے۔
شکر کی تیاری کے حوالے سے انہوں نے لکھا ہے کہ اس کے بعد وہ صرف اس کی کرشنگ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ کھانے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔
جرمن سفیر مارٹن کوبلز نے تازہ تیار شدہ شکر بھی کھائی۔
مارٹن کوبلز جرمنی کے وہ سفارتکار ہیں جو نہ صرف سوشل میڈیا پر انتہائی متحرک رہتے ہیں بلکہ دیگر ممالک کے سفرا سمیت خود پاکستانیوں کے سامنے ملک کی ثقافت اورتہذیب کے اچھے پہلوؤں کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔
پاکستان میں اپنے قیام کے دوران انہوں نے مشہور زمانہ موٹر کار کمپنی ووکس ویگن کی تیار کردہ پرانے ماڈل کی فوکسی خریدی اورپھر اسے پاکستانی ’ٹرک آرٹ‘ سے سجایا۔ اس فوکسی کار کے ساتھ بھی ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر بہت دیکھی اورشیئر کی گئی۔
ووکس ویگن جرمنی کی کمپنی ہے جس کی 80 سالہ پرانی گاڑی ’بیٹل‘ فوکسی کے نام سے مشہور ہے۔ اس کمپنی نے 2018 میں اعلان کیا تھا کہ وہ 2019 میں اپنی تیارکردہ فوکسی گاڑیوں کی پیداوار روک دے گی۔
جرمن سفیر پاکستانی بریانی کے بھی بہت شوقین ہیں اور گاہے بہ گاہے اس سے لطف اندوز ہونے کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں۔
گزشتہ سال انہوں نے سائیکل تیار کرنے والی پاکستانی کمپنی کی تیار کردہ سائیکل راولپنڈی جا کر خریدی اوراس پر سواری کرتے دکھائی دیے۔
اسلام آباد کے بجائے راولپنڈی سے سائیکل خریدنے کی وجہ جرمن سفیر نے یہ بتائی تھی کہ انہیں ہر جگہ غیرملکی برانڈ کی تیارکردہ سائیکلیں مل رہی تھیں جب کہ پاکستانی سائیکل خریدنے کے متمنی تھے۔
مارٹن کوبلز نے اس طرح پاکستانیوں کو ایک یہ پیغام بھی دیا کہ اپنے ملک کی تیارکردہ اشیا کو خریدنے میں دلچسپی لیں اورانہیں ترجیح دیں یعنی ’بی پاکستانی بائی پاکستانی‘ کو عملاً فروغ دینے کی ترغیب دی۔
وہ اکثر و بیشتر پاکستان کے سماجی وتعلیمی مسائل کو بھی نہایت مہذبانہ اندازمیں اجاگر کرتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ اپنے ختیارات کی حدود میں رہتے ہوئے انہیں حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کئی منصوبوں میں انہوں نے اپنے ملک جرمنی کی شراکت داری بھی کرائی ہے جو یقیناً احسن اقدام ہے۔
جرمن سفیر نے گزشتہ دنوں پاکستان پوسٹ آفس کے ذریعے صرف دو سو روپے میں برلن، جرمنی ایک پارسل بھیجا اور سوشل میڈیا پر اس حکومتی ادارے کی کارکردگی کی تعریف کی جہاں کا رخ اب پاکستانی بھی ’کم کم‘ کرتے ہیں۔ یہ اقدام یقیناً پاکستان پوسٹ آفس کے ملازمین کے لیے حوصلہ افزائی کا سبب بنا۔
مارٹن کوبلز اسلام آباد کی سڑکوں پہ کبھی موٹرسائیکل کی سواری سے لطف اندوز ہوتے دکھائی دیتے ہیں تو کبھی سڑک کنارے لگے پتھاروں سے کنو، مالٹے، امرود، فالودہ اوردیگراشیا نہایت ذوق و شوق سے خریدتے ملتے ہیں۔
پاکستان کے سیاحتی مقامات کو بھی انہوں نے دنیا کے سامنے متعدد مرتبہ آشکار کیا ہے۔
جرمنی کے سفیر مارٹن کوبلز نے گزشتہ دنوں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے علاقے ایف-7 میں لگے کچرے کے ڈھیرکے ساتھ اپنی سیلفی کھینچ کر سوشل میڈیا پر ڈالی تو انتظامیہ کی دوڑیں لگ گئی تھیں۔
سی ڈی اے حکام نے عذر لنگ پیش کرتے ہوئے کچھ عملے کو معطل کردیا تھا۔
مارٹن کوبلز نے جشن آزادی بھی نہایت جوش و خروش سے منایا تھا اور باقاعدہ بازار جا کر پاکستانی جھنڈوں اور دیگرسجاوٹی اشیا کی خریداری کی تھی۔
جرمن سفیر درحقیقت اپنی سماجی سرگرمیوں کے ذریعے دنیا کو یہ بھی باور کراتے ہیں کہ پاکستان محبت کرنے والے لوگوں کا ایک ایسا محفوظ ملک ہے جس کی تہذب، تمدن اور ثقافت مختلف دلکش رنگوں سے سجی ہوئی ہے۔
مارٹن کوبلز بیشک! پاکستان میں جرمنی کے سفیر ہیں لیکن جس طرح وہ دیگرمملک کے سفرا دنیا کے سامنے پاکستان کا خوبصورت ’چہرہ‘ پیش کرتے ہیں اس پر پاکستانیوں کی بڑی تعداد انہیں غیر ملکی نہیں اپنا ’سفیر‘ سمجھتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وہ جس علاقے میں بھی جاتے ہیں وہاں پہچان کر لوگ ان کے گرد جمع ہوجاتے ہیں اورساتھ میں سیلفیاں بھی بنواتے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس سمیت بالمشافہ ملاقاتوں میں بھی عوام الناس کی بڑی تعداد انہیں زیادہ تر ’’تھینک یو- مارٹن کوبلز‘‘کہتی ہے۔
جرمن سفیر کو بھی پاکستانیوں کے دوستانہ رویے کی اتنی عادت ہوگئی ہے کہ جب وہ اپنے ملک جرمنی جاتے ہیں تو زیادہ تر وہاں موجود چیزوں کا پاکستانی چیزوں کے ساتھ تقابلی جائزہ پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں اورسماجی رابطوں کے ذریعے اپنا تعلق بھی پاکستانیوں سے برقرار رکھتے ہیں۔