اسلام آباد: سابق صدر آصف علی زرداری نے منی لانڈرنگ کیس میں لارجر بینچ بنانے کی استدعا کی تھی جو مسترد ہوگئی ہے جبکہ باقی نظرثانی کی اپیلیں بھی مسترد کردی گئی ہیں جن میں فریال تالپور اور انور مجید خاندان کی نظر ثانی اپیلیں بھی شامل ہیں۔
سپریم کورٹ میں منی لانڈرنگ کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری کی دائر کردہ نظر ثانی اپیلوں پر چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔
سابق صدر آصف علی زرداری کے وکیل لطیف کھوسہ نے چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ ریفرنس میں آپ نے تاریخی جملے ادا کیے تھے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ ریفرنس کی تقریر عدالتی مثال نہیں ہوتی۔ یہ مقدمے کی دوبارہ سماعت یا اپیل کی سماعت نہیں ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ فیصلے میں کیا غلطی ہے براہ راست اس کی نشاندہی کریں اور نظر ثانی کا دائرہ ذہن میں رکھیں۔ نظر ثانی کے دائرہ پر 50 سے زائد عدالتی فیصلے موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
منی لانڈرنگ کیس، آصف زرداری، فریال تالپور کی ضمانت میں توسیع
لطیف کھوسہ نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس ثاقب نثار کی الوداعی تقریب میں آپ نے سوموٹو اختیارات کے بارے میں بات کی تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تقریر نظیر نہیں ہوتی۔ آپ آصف علی زرداری کی نظر ثانی اپیل پر بات کریں۔ یہ نظر ثانی اپیلیں ہیں آپ کو اس میں غلطی بتانا ہے۔
لطیف کھوسہ نے مؤقف اختیار کیا کہ کوئی بھی مقدمہ درجہ بدرجہ نچلی عدالت سے اوپر آتا ہے جب کہ اسلامی تصور بھی ہے کہ اپیل کا حق ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا قومی احتساب بیورو (نیب) کے سامنے سارا مواد رکھا گیا اور انہیں کہا گیا کہ ریفرنس بنتا ہے تو بنائیں اور اگر نہیں بنتا تو نہ بنائیں۔ ہم اس معاملے میں مداخلت کیوں کریں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس مقدمے میں عدالت نے کوئی فیصلہ نہیں دیا۔ ہم نے تو صرف متعلقہ اداروں کو تفتیش کے لیے کہا لیکن اس سے آپ کی اپیل کا حق کیسے متاثر ہوا۔ آپ اپنے قانونی نکات دیں، ہم جائزہ لیں گے کہ قانونی نکات نظرثانی کے دائرہ کار میں آتے ہیں یا نہیں۔
آصف زرداری کے وکیل نے کہا کہ ہمارا اگلا اعتراض یہ ہے جے آئی ٹی کس قانون کے تحت بنتی ہے جب کہ جے آئی ٹی معاملے پر نواز شریف کی نظر ثانی درخواست مسترد ہوچکی ہے اور اس مقدمے کے حقائق نواز شریف کے مقدمے سے مختلف نہیں ہیں۔
جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری نے لارجر بینچ بنانے کی درخواست دائر کی۔ جس میں استدعا کی گئی کہ کیس کے مدنظر لارجر بینچ تشکیل دیا جائے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا ردعمل
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے کیس کے فیصلے پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ صوبائی خودمختاری کہاں گئی۔