قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کا 119واں یوم پیدائش


اردو ادب کے نامور شاعر اور قومی ترانے کے خالق ابو الاثر حفیظ جالندھری کا 119واں یوم پیدائش آج نہایت عقیدت و احترام سے منایا جا رہا ہے۔

حفیظ جالندھری نے 14 جنوری 1900 کوہندوستان کے شہر جالندھرمیں آنکھ کھولی۔ 1947 میں تقسیم ہند کے بعد لاہور منتقل ہوگئے۔ ابتدا سے ہی انہوں نے اردو ادب میں خاصی دلچسپی لی  اور پھر شاعری کی دنیا میں بہت نام کمایا۔

اردو ادب کے اس لازوال شاعر نے تعلیمی اسناد تو حاصل نہیں کیں لیکن نا صرف اردو شاعری کے افق پرچھائے رہے بلکہ افسانے بھی لکھے۔

انہوں نے نامور فارسی شاعر مولانا غلام قادر بلگرامی کی سرپرستی میں شاعری کے اسرار و رموز سے آگاہی حاصل کی۔ جس کی بدولت وہ معروف ترین شاعروں کی فہرست میں شامل ہوئے۔

چار جلدوں میں شائع  ہونے والی شاہنامہ اسلام حفیظ جالندھری کی پہنچان بنی  اور اسی کی بدولت انہیں  فردوسی اسلام کا خطاب دیا گیا۔

حفیظ جالندھری کو قومی ترامی کی تخلیق پر ہمشیہ یاد رکھا جائے گا

قیام پاکستان کے وقت حفیظ جالندھری کو پاکستان کا قومی ترانہ تخلیق کرنے کے باعث شہرت حاصل ہوئی اور بعد میں یہی ترانہ ان کی پہنچان بھی بنا۔ آج اگر پاکستان کے ترانے کا ذکر ہو اور سب سے پہلے کوئی نام ذہن میں آئے تو وہ حفیظ جالندھری ہی ہوتا ہے۔

ابھی تو میں جواں ہوں، آج بھی عوام میں یکساں مقبول ہے

ان  کی لکھی گئی نظم ‘ابھی تو میں جوان ہوں’ آج بھی عوام میں بے حد مقبول ہے جسے نامور گلوکارہ ملکہ پکھراج کی بے مثل گائیکی کی وجہ سے خاص و عام میں شہرت ملی۔ ( ملکہ پکھراج  برصغیر پاک و ہند کی صف اول کی گلوکاراؤں میں شمار ہوتی ہیں اور وہ پاکستانی گلوکارہ طاہرہ سید کی والدہ  ہیں)۔

حفیظ جالندھری کے شعری مجموعے

حفیظ جالندھری کے شعری مجموعوں میں نغمہ بار، تلخابہ شیریں اور سوزوساز، افسانوں کا مجموعہ ہفت پیکر شامل ہیں۔ اسی طرح ان گیتوں کے مجموعے ہندوستان ہمارا، پھول مالی اور بچوں کی نظمیں قابل ذکر ہیں۔

دنیا کو اردو ادب کی نئی جہتوں سے روشناس کرانے والے حفیظ جالندھری 21 دسمبر 1980 کو لاہور میں وفات پا گئے۔ انہیں ماڈل ٹاؤن میں دفن کیا گیا ۔


متعلقہ خبریں