کراچی: پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقارعلی بھٹو کی صاحبزادی اور بے نظیر بھٹو کی بہن صنم بھٹو کی پاکستان آمد کے ساتھ ہی قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے تاہم ابھی تک سیاسی مبصرین کے نزدیک ملین ڈالر کا سوال یہی ہے کہ کیا ہمیشہ سیاست سے خود کو دور رکھنے والی صنم بھٹو سیاسی میدان میں آنے پر خود کو آمادہ کرسکیں گی؟
پاکستانی ذرائع ابلاغ کے ایک حصے نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں اہم سیاسی ذمہ داری تفویض کی جانے والی ہے جب کہ کچھ کا کہنا ہے کہ سابق صدر پاکستان کی گرفتاری کی صورت میں وہ پی پی پی کی پنجاب میں قیادت سنبھالیں گی اور پارٹی کارکنان سمیت عوام الناس کا لہو گرمائیں گی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق وفاقی وزیرسید خورشید شاہ نے بھی گزشتہ دنوں ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں صنم بھٹو کو ’سیاسی کردار‘ دیے جانے کا عندیہ دیا تھا۔
ہم نیوز کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو کی واحد ’زندہ‘ اور ’غیرسیاسی‘ بیٹی صنم بھٹو جب پاکستان پہنچیں تو انہوں نے اپنے بھانجے اور پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے بلاول ہاؤس میں ملاقات کی۔
ذرائع نے اس ضمن میں دعویٰ کیا ہے کہ ملاقات میں سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری پر دائر مقدمات اور مستقبل کی سیاسی حکمت عملی پر مشاورت کی گئی۔
صنم بھٹو اور بلاول بھٹو زرداری کی ہونے والی ملاقات کے موقع پر پی پی پی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ، پی پی پی خیبرپختونخوا کے صدر ہمایوں خان، پی پی پی بلوچستان کے علی مدد اور چیئرمین کے سیاسی سیکریٹری جمیل سومرو بھی موجود تھے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق یہ بات البتہ حیران کن ضرور ہے کہ جب انہوں نے بلاول ہاؤس میں ملاقات کی تو وہاں پی پی پی کے چاروں اہم صوبائی رہنما موجود تھے وگرنہ اس سے قبل ان کی ملاقاتیں ہمیشہ ذاتی نوعیت کی ہوتی تھیں۔
پارٹی ذرائع نے ہم نیوز کو بتایا کہ متعدد سینئر رہنماؤں نے آصف علی زرداری کی گرفتاری کی صورت میں صنم بھٹو کو پارٹی میں اہم کردار دینے کی تجویز دے رکھی ہے۔
سیاسی مبصرین کو یقین ہے کہ صنم بھٹو کی تصویر پارٹی رہنماؤں کے ساتھ ’بلاوجہ‘ نہیں لگائی گئی ہے بلکہ سیاسی میدان میں ’ہل چل‘ مچانے کی شعوری کوشش ضرور کی گئی ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل صنم بھٹو لندن کے ایک سادہ سے فلیٹ میں عرصے سے زندگی گزاررہی ہیں۔ انہیں طویل عرصے سے ملکی سیاست میں متحرک کرنے کی کوشش جاری ہے لیکن وہ ہمیشہ انکاری رہی ہیں بلکہ انہوں نے اس ضمن میں متعدد مرتبہ انتہائی سختی سے انکار بھی کیا ہے۔
اپنی نجی ملاقاتوں میں البتہ وہ پاکستان کی سیاست کا نہایت حقیقت پسندانہ تجزیہ کرتی آئی ہیں اور اس بات کا بھی انہوں نے کئی مرتبہ اظہارکیا ہے کہ بلاول بھٹو سے انہیں کافی کچھ امیدیں ہیں۔ وہ پارٹی چیئرمین میں اپنے والد کی جھلک دکھنے کا بھی اظہار کرچکی ہیں۔
سیاسی مبصرین یہ امید بھی رکھتے ہیں کہ اگر کسی وقت میر مرتضیٰ بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے درمیان موجود دوریاں ختم ہوں گی تو ان کا سبب بھی صرف صنم بھٹو ہی بن سکیں گی کیونکہ ان کے دونوں خاندانوں سے انتہائی قریبی تعلقات ہیں۔
2015 کے جعلی اکاؤنٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری، بہن فریال تالپور اور ان کے دیگر کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔
یونائیٹڈ بینک لمیٹیڈ، سندھ بینک اور سمٹ بینک میں موجود ان 29 بے نامی اکاؤنٹس میں موجود رقم کی لاگت ابتدائی طور پر 35 ارب روہے بتائی گئی تھی۔
ایف آئی اے نے معروف بینکار حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا جس کے بعد جعلی اکاؤنٹس کیس میں اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کیا گیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے شریک چیئرمین پی پی پی آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔
جے آئی ٹی نے آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی۔ جے آئی ٹی نے اسی ضمن میں چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں رہے ہیں۔ ان کے حوالے سے یہ دعویٰ بھی سامنے آیا تھا کہ صدرپاکستان کا منصب سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروباری و تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔
تحقیقاتی ٹیم نے اسی سلسلے میں اڈیالہ جیل میں حسین لوائی اور عبدالغنی مجید سے سے بھی تفتیش کی تھی۔