اسٹیٹ بینک کی فیصلہ سازی حکومت اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتی، فرخ سلیم



اسلام آباد: نامور ماہر معاشیات عابد حسن نے کہا ہے کہ پاکستان کو ڈالر بچانے کے لیے اپنی درآمدات میں کمی لانی چاہیئے، پاکستان کی درآمدات کو اگر جی ڈی پی کی شرح کے حوالے سے دیکھا جائے تو ہماری صورتحال بنگلہ دیش اور بھارت سے بہتر ہے، ہمارا اصل مسئلہ برآمدات میں کمی ہونا ہے۔

ہم نیوز کے پروگرام ’ایجنڈا پاکستان‘ کے میزبان عامر ضیاء سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جو بھی سرمایہ کاری آ رہی ہے وہ درست نہیں ہے، ہمیں ایسی براہ راست بیرونی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) چاہیئے جو درآمدات کے بجائے برآمدات کو بڑھائے۔

عابد حسن نے کہا کہ پاکستان میں اسٹیٹ بینک کبھی بھی خودمختار ادارہ نہیں رہا کیونکہ اس کا گورنر وزارت خزانہ کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب روپے کی قیمت میں کمی ہوتی ہے تو ہر طبقہ اس کی زد میں آتا ہے، حکومت کا فرض ہے کہ وہ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے لوگوں کا تحفظ کرے جبکہ باقی طبقات کو مشکل کا سامنا کرنا چاہیئے۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی بھارت اور پاکستان سے بہتر ہے لیکن صوبائی سطح پر صورتحال مایوس کن ہے۔ صوبہ سندھ میں ساڑھے چار ہزار روپے جبکہ پنجاب میں ساڑھے تین ہزار فی کس ٹیکس اکٹھا ہوتا ہے، اس کے برعکس  بھارتی پنجاب میں ہر شخص اوسطاً 25000 روپے ٹیکس ادا کرتا ہے۔

تجارت اور توانائی کے حکومتی ترجمان ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا کہ اسٹیٹ بینک ایک خود مختار ادارہ ہے، حکومت اس کے ساتھ اشتراک تو کر سکتی ہے لیکن اس کی فیصلہ سازی اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتی۔ ٹیکس بڑھانے کے لیے ایف بی آر میں دو ونگ بنائے جا رہے ہیں، ایک پالیسی ونگ ہو گا جس میں ٹیکس دینے والا طبقہ شامل ہو گا جو پالیسی تیار کرے گا جبکہ ایف بی آر کا ونگ اس پر عمل کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ جب شرح سود میں اضافہ ہوتا ہے تو اسٹاک ایکسچینج بھی گرتی ہے، امریکہ سمیت دیگر کئی ممالک کی اسٹاک مارکیٹس میں کمی آئی ہے۔ 2017 کے مالی سال کے پہلے چار ماہ کے مقابلے میں موجودہ حکومت کے چار ماہ میں ہماری برآمدات ساڑھے تین فیصد اور ترسیلات زر 15 فیصد بڑھی ہیں جبکہ تجارتی خسارہ 2 فیصد اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ساڑھے چار فیصد کم ہوا ہے۔

ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا تھا کہ روپے کی قدر میں کمی نہ کرنے کی اسحاق ڈار کی ضد کی وجہ سے پچھلے 15، 16 ماہ میں نو ارب ڈالر ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر سے نکل گئے۔

سرمایہ کاری کے حوالے سے عامر ضیاء کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پیپسی، سوزوکی کمپنی، جے ڈبلیو کارگو، ایکسن موبل پاکستان میں سرمایہ کاری کا آغاز کر رہی ہیں، جرمن سفیر نے کہا ہے کہ سیمنز اور ووکس ویگن سرمایہ کاری کر رہی ہیں اور یہ نیا پاکستان پر اعتماد کا اظہار ہے۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ بھارت میں انتخابات ہو رہے ہیں اس لیے پاک بھارت تعلقات میں بہتری کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

پروگرام میں شریک ماہر معاشیات محمد سہیل نے کہا ہے کہ مقامی اور بیرونی سرمایہ کاروں کو تاثر جا رہا ہے کہ موجودہ حکومت معیشت کے میدان میں کامیاب نہیں ہو پا رہی حالانکہ سب کی توقع یہ تھی کہ پی ٹی آئی کی حکومت بجٹ اور تجارتی خسارہ دور کرے گی اور درآمدات بڑھیں گی لیکن ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہو سکا۔


متعلقہ خبریں