العزیزیہ میں بیان مکمل، نواز شریف کا دفاع نہ پیش کرنے کا فیصلہ


اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف نے نیب کی جانب سے دائر العزیزیہ ریفرنس میں بیان قلمبند کراتے ہوئے کہا ہے کہ استغاثہ میرے خلاف کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا، میں العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس میں اپنا دفاع پیش نہیں کر رہا۔

نوازشریف نے کہا کہ ہے کہ بارثبوت استغاثہ پر ہے اور اسی نے الزام کو سچ ثابت کرنا ہے۔

نوازشریف نے العزیزیہ ریفرنس میں اپنا بیان مکمل کرلیا ہے اور عدالت نے فریقین سے حتمی دلائل طلب کرلیے ہیں۔

احتساب عدالت کی جانب سے نوازشریف کو 151 سوال دیے گئے تھے جبکہ سابق وزیراعظم نے چار سوالوں کے جواب کیلئے اضافی وقت مانگا تھا۔

سابق وزیراعظم العزیزیہ ریفرنس میں 342 کے تحت اپنا بیان ریکارڈ کرا رہے ہیں۔ احتساب عدالت کی جانب سے فلیگ شپ ریفرنس میں 18 اور العزیزیہ میں 22 گواہان کے بیان قلم بند کیے گئے ہیں۔

قبل ازیں سپریم کورٹ نے بارہ اکتوبر کو چھٹی بار مہلت میں توسیع دی تھی جو 17 نومبر کا ختم ہوگئی تھی تاہم بعد ازاں سپریم کورٹ نے نوازشریف کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت مکمل کرنے کیلئے احتساب عدالت کو مزید تین ہفتوں کی مہلت دی ہے۔

العزیزیہ ریفرنس میں نوازشریف کا بیان

عدالت نے نوازشریف سے استفسار کیا کہ آپ کیخلاف یہ کیس کیوں بنایا گیا ؟

سابق وزیراعظم نے کہا کہ میرے سیاسی حریفوں کے الزامات پر میرے خلاف کیس قائم کیئے گئے, جے آئی ٹی کی یکطرفہ اور جانب دار رپورٹ پر کیس قائم کیئے گئے، جے آئی ٹی نے مجھے اثاثوں کا اصل مالک لکھ دیا، میرے سمیت شریک ملزمان نے جے آئی ٹی رپورٹ میں لکھی باتوں کی نفی کی تھی۔

نوازشریف کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے ریفرنسز دائر کرنے کیلئے نیب کو کہا، عدالت عظمیٰ نے کہا تھا ٹرائل کورٹ جے آئی ٹی کے شواہد کو پرکھنے میں مکمل آزاد ہوگا، سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ٹرائل کورٹ کو سپریم کورٹ کی کوئی آبزرویش متاثر نہیں کرے گی۔

احتساب عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے سابق وزیراعظم نے مؤقف اختیار کیا کہ میرے خلاف اس کیس میں کوئی ثبوت موجود نہیں، واجد ضیا اور نیب کے تفتیشی نے اپنے بیان میں مجھے پھنسانے کی کوشس، ایسے کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے کہ العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس کے قیام کے وقت بیٹے میرے زیر کفالت تھے، ایسے کوئی شواہد پیش نہیں کیے کہ میں نے العزیزیہ اور ہل میٹل کیلئے فنڈ فراہم کیے

سابق وزیراعظم نے عدالت کو بتایا کہ 2001 میں حسین نواز کی عمر 29 سال تھی، 2001 سے2005 تک میرے پاس کوئی پبلک آفس نہیں تھا۔ انہوں نے بتایا کہ 2010 میں حسین نواز کی طرف سے بھیجی گئی رقوم بھی ٹیکس ریکارڈ میں ظاہر کر رکھی ہیں۔

نوازشریف کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ حسین نواز نے ایک بیٹے کی حیثیت سے محض محبت میں رقوم بھیجی ہمارے معاشرے میں روایت ہے کہ بیٹے والد کو اپنی کمائی سے رقوم بھیجتے ہیں، رقوم بھیجنے کا کوئی اور مطلب نہیں نکالا جا سکتا۔

احتساب عدالت میں 342 کے تحت اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے سابق وزیراعظم نے مؤقف اپنایا کہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا نے مجھے غلط طور پر پھنسانے کی کوشش کی، واجد ضیا اور تفتیشی افسر کے علاوہ کسی گواہ نے میرے خلاف بیان نہیں دیا۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ واجد ضیا اور تفتیشی افسر کا بیان قابل قبول شہادت نہیں، واجد ضیا اور تفتیشی افسر نے اعتراف کیا کہ العزیزیہ اور ہل میٹل میری ملکیت میں ہونے کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں۔

سابق وزیر اعظم نے مؤقف اپنایا کہ ایسا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا جس سے ظاہر ہو کہ حسن اور حسین نواز میرے زیر کفالت تھے۔

فلیگ شپ ریفرنس

نوازشریف کے خلاف دائر فلیگ شپ ریفرنس میں جے آئی ٹی کے تفتیشی افسر محمد کامران پر جرح  جاری ہے۔ سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث جرح کر رہے ہیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے نوازشریف کیخلاف ریفرنسز کی سماعت مکمل کرنے کیلئے تین ہفتوں مہلت دی ہے اور احتساب عدالت نمبر دو کے جج ارشد ملک نے بھی عندیہ دیا ہے کہ فلیگ شپ ریفرنس میں  70 سے 75 سوالات رکھے جائیں گے۔


متعلقہ خبریں