نیب ریفرنسز کے فیصلے سے 900 ارب روپے وصول ہونگے، مسرور شاہ


اسلام آباد: نامور ماہر قانون بیرسٹر مسرور شاہ نے کہا ہے کہ اگر نیب کے دائر کیے گئے ریفرنسز کا فیصلہ ہو جائے تو 900 ارب روپے قومی خزانے میں شامل ہو جائیں گے۔

یہ بات انہوں نے ہم نیوز کے پروگرام ’ایجنڈا پاکستان‘ میں بات کرتے ہوئے کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب کوئی سیاسی جماعت اپوزیشن میں ہوتی ہے تو اسے نیب میں کوئی خامی نظر نہیں آتی لیکن جب وہی حکومت اقتدار میں آ جاتی ہے تو اس ادارے میں خرابیاں نظر آنے لگتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیب میں تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے تاہم یہ کام حکومت کو اکیلے نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپوزیشن کو بھی اس میں شامل کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ نیب کو پارلیمنٹ کی نگرانی میں کام نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ یہ بلی کو دودھ کی نگرانی پر لگانے والی بات ہے۔

نیب کے طریق کار کے بارے میں بیرسٹر مسرور شاہ نے بتایا کہ نیب کے پاس جب شکایت آتی ہے تو سب سے پہلے اس کی تصدیق کی جاتی ہے، اس کے بعد انکوائری اور پھر تحقیقات کی جاتی ہیں۔ ہر مرحلے پر ایک بورڈ بیٹھتا ہے۔ اس تمام طریق کار کے بعد ریفرنس دائر کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ رانا ثنااللہ کہتے ہیں کہ نیب سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کے خلاف جو بھی کارروائیاں ہوتی تھیں وہ نواز شریف کے کہنے پر ہوا کرتی تھی؟

پروگرام میں شریک ماہر قانون شاہ خاور نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے درست کہا ہے کہ نیب کو چھوٹے چھوٹے معاملات میں نہیں الجھنا چاہیے اور خود کو بڑے مقدمات تک محدود رکھنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ نیب کو آغاز میں ہی انکوائری میں محنت کرنی چاہیئے۔ تمام شہادتیں اکٹھی کرنے کے بعد ہی اگلے مرحلے کی طرف جانا چاہیئے تاکہ ملزموں کو سزا ملنا 99 فیصد یقینی ہو جائے۔

شاہ خاور کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب کے صوابدیدی اختیارات بہت زیادہ ہیں۔ ان کی مرضی ہے کہ وہ دوران تحقیقات جسے چاہیں گرفتار کریں یا جسے چاہیں گرفتار نہ کریں۔ اس کے لیے کوئی معیار ہونا چاہیے۔ صوابدیدی اختیارات بھی کسی پیرائے میں ہونے چاہئیں۔

نیب کے حوالے سے اپنی جماعت کا نکتہ نظر دیتے ہوئے قمر الزمان کائرہ نے کہا کہ نیب کا استعمال ہمیشہ اپوزیشن کو راہ راست پر لانے اور حکومت کے حق میں ہوا ہے۔ آج سپریم کورٹ اور حکمران جماعت بھی مان رہے ہیں کہ نیب قوانین میں مسائل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نہ صرف نیب کو پارلیمنٹ کی نگرانی میں کام کرنا چاہیئے بلکہ اس کے اندر مختلف تعیناتیوں میں بھی پارلیمنٹ کا عمل دخل ضروری ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما راناثنااللہ نے کہا کہ نیب کو ہر حکومت نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اگرچہ ہماری حکومت نے سیاسی مخالفین کے خلاف نیب کو استعمال نہیں کیا تاہم اس دور میں نیب بدعنوانی کے خلاف پوری طرح متحرک نہیں ہو سکا۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما علی محمد خان نے کہا کہ نیب کو چاہیے کہ جو بھی مقدمات شروع ہوں انہیں اپنے منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ اب ایسا نہیں ہو گا کہ نیب ریفرنسز صرف سیاست دانوں کو دبانے کے لیے استعمال ہوں بلکہ ہر مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔


متعلقہ خبریں